یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں
خود سے پوچھیے بھوک لگے تو کیا کرتے ہیں، گھر کے باورچی خانے کی طرف رجوع کرتے ہیں، چولہے سے تازہ کھانا اترا ہوتا ہے، پکانے والے کو اپنی بھوک کا اشارہ کیا اور کھانا حاضر۔ تازہ کھانا نہیں دستیاب تو فریج کھولتے ہیں اور لذتوں کےخزانے سے کچھ نہ کچھ برآمد ہو ہی جاتا ہے۔
گھر سے کھانے کو کچھ ڈھنگ کا نہ ملے تو کھانا آن لائن آرڈر کرنے میں درجنوں نہیں اب ہزاروں سہولتیں موجود ہیں۔ چالیس منٹ میں برگر، پیزا، تکہ بوٹی، بریانی، حلیم سب حاضر۔
بھوک زوردار لگی ہے جب تک کھانے کی ہوم ڈیلوری ہو رہی ہے تب تک گھر میں وہ برنیاں تو ضرور کھنگالیں گے جن میں نمکو، بسکٹ چپس وغیرہ پڑے ہوں۔ یہ بے وقت کی بھوک کے لیے اہتمام ہے۔ باقی پھل اور خشک میوہ جات وہ بھوک کے زمرے سے نکل کر منہ کا ذائقہ بڑھانے، دل پشوری اور پیٹ بھرے کے شوق ہیں، ان کا تو ذکر ہی کیا۔
لیکن ایک لمحے کو سوچیں۔۔ سوچ نہیں سکتے تو کوشش کریں۔ ذرا ذہن پہ زور ڈالیں کسی فلم یا ڈاکومنٹری میں غربت کا حال دیکھا ہوگا، وہی تصور میں لے آئیں۔
سوچیں کہ آپ سارا دن مزدوری کرکے خالی پیٹ گھر واپس آئے ہیں، سیٹھ نے پیسے ہفتے کے آخر میں دینے کا کھوکھلا وعدہ کیا ہے، اس لیے پیٹ کے ساتھ جیب بھی خالی ہے۔ گھر میں سب سو چکے، آپ دبے پاوں باورچی خانے گئے چولہا ٹھنڈا پڑا ہے، ساتھ بنی مچان بھی ٹٹول لی مگر روٹی سالن چاول کا کوئی نشان نہیں۔ آپ بھوک سے تلملا رہے ہیں۔
ایک پرانا سا دم توڑتا فریج ہے جو کہ کئی ماہ سے بند پڑا ہے۔ ہاں اس کے اوپر کچھ پلاسٹک کی تھیلیوں میں بچوں کے بسکٹ ٹافی پڑی ہوتی ہے، یہاں وہاں ہاتھ مارا کچھ نہیں ملا۔ الٹا خالی پلاسٹک کے شاپروں کی شڑ شڑ سے بیوی جاگ گئی۔ آپ نے جھنجھلاہٹ میں پوچھا: ’کھانا کہاں رکھا ہے؟‘
ذرا سوچیں کہ جواب میں آپ کو بیگم کی خالی نظریں ملیں۔ آپ پیر پٹخ کر پھر سوال دہرائیں اور جواب ملے کہ تین بچے بھی بھوکے پیٹ بمشکل سلائے ہیں، میں تو سمجھی تھی کہ تم کام سے واپسی پہ کچھ لاو گے۔
بس یہیں تک سوچیں کیونکہ اس سے آگے سوچنے کا ہمیں یارا نہیں۔ اس کے بعد سوچیں گے تو زبان کڑوی ہو جائے گی۔ بھوکا تو شیر بھی نہیں رہ سکتا، بھیڑ بکریوں کا ذکر ہی کیا۔
سیاسی پوائنٹ سکورنگ کے لیے تو عمران خان کی حکومت کو مہنگائی کا سہرا پہنایا جا سکتا ہے اور یہ بالکل بجا بھی ہے کہ بنیادی اجناس کی قیمتیں غریب نہیں متوسط گھرانوں کی پہنچ سے بھی باہر ہوگئی ہیں، لیکن جس مسئلے کی جانب میں آپ کو لانا چاہ رہی ہوں وہ اس سے بھی بڑا ہے۔ بڑا اس لیے کیونکہ یہ مسئلہ حکومت نہیں روک سکتی۔ اس مسئلے کو پالنے میں ہم سب کا کردار ہے۔ مسئلہ ہے کھانے کا زیاں، رزق کی بے قدری۔
روٹیاں ڈھیروں سوکھ کر ردی میں جاتی ہیں، بچا کھچا سالن کبھی ماسی کو، سڑ جائے تو کچرے میں۔ پھل بچوں نے کھائے تو کھائے، اگر گل گئے تو یہ بھی کچرے میں۔ سالن میں تری کے نام پہ گھی تیل چڑھا ہوا، جسے کھاتا کوئی نہیں اور سالن کی اس رونق کو بعد میں نالی میں بہانا پڑتا ہے۔
آج کی خبر ہے کہ 2021 میں افریقی ملک مڈغاسکر میں قحط سالی ایسی آئی ہے کہ لوگ چمڑے کے جوتے پکا کر کھا رہے ہیں۔ مڈغاسکر کی مائیں کہہ رہی ہیں کہ ہم اتنے کمزور ہوگئے ہیں کہ چلتے چلتے کئی بار چکرا کر گر جاتے ہیں۔ خبر کے مطابق اب تک ساڑھے تین سو افراد بھوک سے مر چکے ہیں۔
مڈغاسکر پاکستان سے ہزاروں میل دور ہے۔ ہمارا زیادہ پریشان ہونا بنتا تو نہیں مگر تھوڑا گھبرا لیں کیونکہ بھوک، قحط اور خشک سالی پاکستان کے علاقے تھر میں بھی کچھ ایسی ہی ہے جہاں ایک خبر کے مطابق صرف دسمبر کے ایک ہفتے میں 20 نوزائیدہ بچے مر گئے کیونکہ ان کی مائیں غذائی قلت کا شکار تھیں۔ تھر خبروں میں ہے مگر ایسی بھوک کے ہاتھوں موت کے ان گنت ان رپورٹڈ واقعات نجانے کتنے ہوں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دراصل بھوک اور قحط کو افریقی مسئلہ سمجھ کر ہم نظر انداز کرتے رہے ہیں لیکن یہ زیادہ پرانی بات نہیں۔ انیسویں صدی کے آغاز میں انڈونیشیا کے جزیرے میں ایک آتش فشاں پھٹ پڑا تھا۔ اس کا دھواں غولہ بن کر آسمان تک گیا۔
جانتے ہیں انڈونیشیا کے آتش فشاں کا اثر کہاں ہوا تھا؟ امریکہ، برطانیہ اور کئی یورپی ممالک شدید متاثر ہوئے، ایک سال تک دھوپ نہیں نکلی، مسلسل برف باری اور بارشیں ہوتی رہیں، ٹائفس نامی وبا پھیلی، مقامی فصلیں تباہ ہوئیں اور نتیجہ قحط اور بھوک کی شکل میں آیا۔ اس بھوک و بیماری سے لاکھوں افراد مرگئے تھے۔
اس وقت یورپ یا امریکہ کے پیٹ بھروں نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ انڈونیشیا کا آتش فشاں ہزاروں میل دور قہر بن کر ان پہ برسے گا، مگر یہ ہوا۔
آج سائنس کی ترقی سے ہمیں سوچنے کی زحمت نہیں اٹھانی پڑتی۔ سائنس سینہ پیٹ پیٹ کر بتا رہی ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی سے قحط اور بھوک آنے کا خطرہ ہے اور پاکستان اس کے فوری ٹارگٹ میں سے ایک ہے۔ سیاسی کھینچا تانی اور خانہ جنگی سے بھی بھوک آ رہی ہے۔ لبنان، شام، یمن، افغانستان تو ہم سے بہت قریب ہیں، یہاں بھوک ناچ رہی ہے۔
ہم اور آپ دنیا سے بھوک، قحط، خشک سالی تو ختم نہیں کرسکتے مگر بھوک کی آگ بجھانے کے لیے ایک قطرہ تو بن سکتے ہیں۔ اپنی غیر ضروری حاجتوں کو مختصر کرکے، اپنی بے پناہ بھوک کو کم کرکے اور اپنی غذائی عیاشیوں کو محدود کرکے۔
نوٹ: یہ تحریر مصنفہ کی رائے پر مبنی ہے۔ ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔