لبنان طویل عرصے سے ہمہ جہت معاشرتی، معاشی اور سیاسی آفات کا سامنا کر رہا ہے۔ ان آفات کی وجہ بظاہر ملک کی بدعنوان سیاسی اشرافیہ، ایران کی شہہ پر ناچنے والے حزب اللہ جیسے غیرریاستی عناصر اور امریکی قیادت میں ایران، حزب اللہ اور ان کے دم چھلوں کے خلاف لگنے والی ہمہ جہت پابندیاں بتائی جاتی ہیں۔
اگر فوری طور پر ہوش مندی سے موجودہ صورت حال کا حل تلاش نہ کیا گیا تو معاملات پہلی جنگ عظیم (1914-1915) کے بعد لبنان میں پڑنے والے ہلاکت خیز قحط جیسی صورت حال اختیار کر سکتے ہیں جس میں اس وقت لبنان کی ایک تہائی آبادی موت کے منہ میں چلی گئی تھی۔
یہ دھمکی آمیز بیان عالمی جنگ کے دوران پیدا ہونے والی صورت حال کا انتہائی دانش مندانہ اظہار ہے۔ مختلف سیاسی کرداروں اور حالات کے باعث لبنان کو آج ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔
سوال پیدا ہوتا ہے کیا لبنانیوں کے درد دور کیے بغیر امریکہ کو وہاں ایرانی قیادت میں چلنے والے نام نہاد ’مزاحمت کے محور‘ کی طاقت کو بے ہنگم انداز سے روکنے کی کوشش اسی انداز میں جاری رکھنی چاہے جیسا کہ پہلی جنگ عظیم کے وقت اتحادی فوج نے بلاد الشام [لبنان، فلسطین اور شام] میں عثمانی حکومت کو زیر نگین کرنے کے لیے اختیار کی؟
کالم نگار کی یہ سوچی سمجھی رائے ہے کہ ایسی پالیسی کے جاری رہنے سے شرق اوسط میں رسوخ حاصل کرنے کی امریکہ۔ایران کوششوں میں کوئی اور نہیں، صرف لبنانی عوام قربانی کا بکرا بن رہے ہیں۔
جنگ عظیم کے اوائل میں سلطنت عثمانیہ نے جرمنی، آسٹریا اور ہنگری کے ساتھ اتحاد کر کے آبنائے باسفورس بند کر دی۔ یہ آبی گزرگاہ روس اور اس کے اتحادیوں کے درمیان رابطے کا مرکزی روٹ تھا۔
حزب اللہ کو لبنانی سیاست سے باہر نکالنے کی کوشش ملک کو خانہ جنگی کی طرف بھی دھکیل سکتی ہے۔
قسطنطنیہ میں اس وقت کے امریکی سفیر ہنری مورجنتھاؤ کے مطابق ’اس اقدام سے شہنشاہ روس [czar] کی فوج کو اسلحہ کی ترسیل بند ہونے سے روس معاشی طور پر تباہ ہو جائے گا کیونکہ کمونیکیشن روٹ کی بندش سے روسی اجناس کی برآمد رک جائے گی۔ انہی اجناس کی فروخت روسی آمدن کا اہم ذریعہ تھی۔ نتیجتاً روس عالمی جنگ میں اپنے پارٹنرز سے الگ ہو جائے گا۔‘
اتحادی فوج نے انتقامی کارروائی کے طور پر آبنائے باسفورس کے ساتھ ترک مورچوں پر بمباری کی اور مشرقی بحیرہ روم کی ناکہ بندی کر کے عثمانیوں کی سپلائی لائن بند کر دی۔ اتحادیوں نے جزیرہ نما گیلی پولی اور شام۔لبنان۔فلسطین کی ساحلی علاقوں میں چھاتہ بردار فوج اتارنے کا خفیہ منصوبہ بھی تیار کر لیا تھا۔
لبنان میں مقیم فرانس نواز مسیحی برادری کی مدد سے اتحادی چھاتہ برداروں کے بیروت میں اترنے کے ڈر سے جوابی اقدام کرتے ہوئے بلاد الشام کے فوجی گورنر جمال پاشا نے جبل لبنان اور بیروت کی ناکہ بندی کر دی۔
اتحادی ناکہ بندی سے بلاد الشام کے ساحلی علاقوں کا سپلائی روٹ بند ہو گیا۔ بیروت کی آمد ورفت اور بیرون ملک سے ترسیلات زر بند ہو گئیں۔ کھانے پینے کی اشیا ملک میں نایاب ہونے لگیں کیونکہ لبنان نے روزمرہ کے استعمال میں آنے والی فصلوں کی کاشت بند کر دی تھی۔
لبنان کی کمزور معیشت کا انحصار چونکہ عالمی سرمایہ داری نظام پر تھا اس لیے جبل لبنان اور بیروت کی معیشت یک دم زمین پر آ رہی جس کے باعث لوگوں کو گزر اوقات کے لیے کمانا ممکن نہ رہا۔
ضد میں آ کر جمال پاشا نے لبنان کے لیے توشہ دان کا کام کرنے والی وادی بقاع سیل کر دی اور جبل لبنان سے فلسطین اور شام کے ساتھ ڈھور ڈنگر اور ان سے حاصل ہونے والی مصنوعات کی نقل وحمل پر پابندی لگا دی۔ جبل لبنان میں ان اشیا کی پہلے ہی شدید قلت تھی۔ نیز گندم اور دالوں کی جبل لبنان سے برآمد روک دی گئی اور تمام فصلوں بالخصوص گندم کی نقل وحمل پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔
ناکہ بندی کی وجہ سے عوام بڑے پیمانے پر فاقوں کا شکار ہونے لگے۔ جمال پاشا نے فاقہ کشی کو جنگی سٹرٹیجی کے طور پر استعمال کیا تاکہ مسیحیوں کو اپنا مطیع وفرمانبردار بنا سکے۔ عیسائیوں کے اتحادی فورسز سے رابطے ختم کروا سکے اور مسیحی برادری اتحادی چھاتہ برداروں کو بیروت میں خوش آمدید کہنے کے قابل نہ رہیں۔
سلطنت عثمانیہ نے بینکوں کے نادہندگان کو قرض واپسی کی خصوصی مہلت دی اور کرنسی نوٹ متعارف کرائے۔ افراط زر کی وجہ سے یہ تمام کارروائی بےسود ثابت ہوئی۔ لبنان میں عوام کو کھلانے کے لیے کچھ نہ بچا اور فاقہ کشی کے مارے عوام مہنگے داموں کوئی چیز خریدنے کے قابل نہیں تھے۔
جمال پاشا نے اپنی جنگی سٹرٹیجی کو مضبوط بنانے کے لیے مارشل لا لگایا اور لبنانیوں سے جبری مشقت لی اور ان کی سرکردہ قیادت کو ملک بدر اور پھانسی جیسے ظالمانہ ہتھکنڈے کا شکار کیا۔ قحط اور ناقص غذا کی وجہ سے لوگوں میں ہیضہ، ملیریا، اسہال اور انفلوئنزا جیسی بیماریاں پھیلنا شروع ہو گئیں۔
ایک فرانسیسی خفیہ رپورٹ کے مطابق ’ناکہ بندی کو جنگی حکمت عملی کے طور پر استعمال کرتے ہوئے جمال پاشا نے لبنانیوں کو بے رحمانہ طریقے سے کچلا۔‘ خود سے منسوب ایک بیان میں جمال پاشا اپنی کامیاب جنگی حکمت عملی پر شیخی بگھارتے ہوئے کہتے ہیں: ’ہم نے آرمینیوں کو تہہ تیغ کیا اور لبنانیوں سے ہم قحط کے ذریعے نجات پا لیں گے۔‘ خلافت عثمانیہ کے وزیر جنگ انور پاشا سے منسوب بیان میں وہ کہتے ہیں کہ ’اب اگر فرانسیسی لبنان آئے تو انہیں یہاں صرف پہاڑ ملیں گے۔‘
لبنانیوں کو آج بالکل ایسی ہی صورت حال کا سامنا ہے۔ ایک طرف تہران، شامی رجیم اور حزب اللہ جیسی ایران کی بغل بچہ ملیشیا کے خلاف امریکی قیادت نے پابندیاں لگا رکھی ہیں تو دوسری جانب ایران اور عراق نواز ملیشیائیں اور حزب اللہ لبنانیوں کی قسمت کھوٹی کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتیں۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ مغرب امریکہ کی حمایت کر رہا ہے جبکہ چین اور روس ایران کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں۔ لبنان سے متعلق ایران اور امریکہ کی محاذ آرائی کے بعد ملک کی معاشرتی، معاشی اور سیاسی صورت حال ناقابل برداشت ہوتی جا رہی ہے۔ آزادی کے بعد سے لبنان میں کچھ نہیں بدلا۔
ڈالر کے ساتھ جڑی لبنان کی معیشت صارفیت اور گلوبل اکانومی پر انحصار کرتی ہے۔ بنیادی اقتصادی ڈھانچے کی خامیوں نے لبنان کو موجودہ صورت حال تک پہنچایا ہے اور ملک کے کارپرداز نظام کی اس کمزوری کا برملا اعتراف کرتے ہیں۔
اگرچہ لبنان نے ’لا شرقیہ، لا غربیہ‘ کو اپنا قومی نعرہ قرار دے رکھا ہے تاہم بیروت کی اندرونی کمزوریوں نے ہمیشہ غیر ملکی مداخلت کی راہ ہموار کی جس نے بیروت کی عرب شناخت کو ہمیشہ محل نظر بنائے رکھا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ لبنان کے قومی معاہدہ کے خالقوں کو امید تھی کہ لبنانی مسیحی وہاں بسنے والے مسلمانوں کو ’لبنانی‘ بنائیں گے اور مسلمان، لبنان کو ’عرب‘ شناخت دلوانے کی سعی میں کامیاب ہوں گے، مگر شومئی قسمت لبنان کا قومی معاہدہ تحریر کرنے والا کا یہ خواب شرمندہ تعبیر نہ ہو سکا۔
سلطنت عثمانیہ کے دور میں زراعت پر ٹیکس لگا کر ملکی خزانہ بھرنے والی ساہوکار قیادت آگے چل کر جاگیردار سیاسی قیادت بن گئی جس نے ریاست کو داؤ پر لگا کر اپنی طاقت میں اضافہ کیا۔ کمزوریوں کا اعتراف کرنے کے باوجود انہیں حل نہ کرنے کی روش نے فرقہ پرست اشرافیہ کو موقع دیا کہ وہ عوام کو اپنے تباہ کن ایجنڈے کا ایندھن بنا لیں۔ اسی اشرافیہ نے لبنان میں فرقہ وارانہ سرپرستی کا ایسا نظام وضع کیا جو نوکر شاہی کی رگ وپے میں سرایت کر گیا۔
اس پالیسی کے نتیجے میں لبنان کے معاشرتی اور معاشی منظرنامے نے تنظیم آزادی فلسطین [پی ایل او]، عوامی محاذ برائے آزادی فلسطین، بعث پارٹی اور حال ہی میں حزب اللہ جیسے غیر ریاستی عناصر کو پھلنے پھولنے کا سازگار ماحول فراہم کیا، جنہوں نے آگے چل کر ملکی سیاست کا دیوالیہ نکال دیا۔
جنوبی لبنان سے اسرائیلی فوج کو 2000 میں انخلا پر مجبور کرنے کے بعد حزب اللہ کو ملکی سطح پر اہمیت ملنا شروع ہوئی۔ سیاسی اشرافیہ حزب اللہ کی بڑھتی ہوئی طاقت کے آگے بند باندھنے میں بری طرح ناکام رہی۔
لبنان کی سیاسی اشرافیہ کی آنکھوں کے سامنے اور بغیر کسی مزاحمت کے 2008 کے موسم گرما میں حزب اللہ نے بیروت پر عملاً قبضہ کر لیا جو اس بات کی گواہی تھی کہ ایران شرق اوسط کی اپنی پالیسی کو کامیاب بنا چکا ہے۔
لبنان کے سیاسی مافیا نے اپنی اعتباریت کو داؤ پر لگا کر حزب اللہ سے ایک معاہدہ کیا جس کے تحت انہوں نے ایرانی ملیشیا کو تحفظ فراہم کرنا تھا اور بدلے میں حزب اللہ اپنے ان سیاسی سرپرستوں کو ریاست کی قیمت پر اپنی دولت میں اضافے کا موقع فراہم کرنے کی پابند تھی۔
اس پالیسی نے لبنان کو روز بروز زوال کا شکار کرنا شروع کیا جس کا حتمی نتیجہ لبنان کے ایک ناکام ریاست کی صورت میں سامنے آیا۔ لبنانی اپنے ملک کو بدعنوان سیاسی قیادت اور حزب اللہ کے چنگل سے آزاد نہ کروا سکے اور اس طرح ان کا 17 اکتوبر 2019 کا ’انقلاب‘ بھی ناکامی سے دوچار ہو گیا۔
حزب اللہ ایک ایسا ’ہائبرڈ غیرریاستی عنصر‘ بن کر سامنے آیا کہ جو ایک ہی وقت میں ریاست کا جزو لا ینفک بھی تھا، اگلے ہی لمحے وہ ریاست سے علاحدہ ایک خودمختار تنظیم بن جاتی، جو ریاست کو جوابدہ نہیں۔ بالفاظ دیگر حزب اللہ نے لبنان میں ریاست کی ایک نئی تعریف متعارف کرائی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امریکی پابندیوں نے حزب اللہ سے زیادہ لبنان کے عام عوام کو نقصان پہنچایا۔ تنظیم نے ملک کے ریاستی اداروں کے کنڑول سے ہٹ کر لبنان میں متوازی معیشت قائم کر کے خود کو امریکی پابندیوں کے مضر اثرات سے محفوظ بنا رکھا ہے۔
اقوام متحدہ کے ایک پالیسی بریف کے مطابق لبنان کی 82 فیصد آبادی کثیر جہتی افلاس میں زندگی گزار رہی ہے۔ حالیہ بحران کے آغاز سے لے کر اب تک ملکی کرنسی لیرا اپنی 90 قدر کھو چکی ہے۔ لبنانی آج انتہائی ذلت آمیز اور قلاش قوم بن کر رہ گئے ہیں جن کے لیے اپنی روح و جسم کا رشتہ برقرار رکھنا انتہائی دشوار بن چکا ہے۔
لبنانیوں نے پہلی جنگ عظیم کے موقع پر اتحادیوں کی ناکہ بندی کی حمایت کی تھی۔ آج بھی اہالیاں لبنان کی بڑی اکثریت امریکی پابندیوں کی حمایت کر رہی ہے، تاہم انہیں خدشہ ہے کہ وہ امریکی پابندیوں اور حزب اللہ کے مظالم اور چودھراہٹ کے درمیان پھنس کر رہ گئے ہیں۔
لبنان کے باسیوں کی بڑی اکثریت کا خیال ہے کہ ایران پر امریکی پابندیاں حزب اللہ کا تو کچھ بگاڑنے کی پوزیشن میں نہیں تاہم اس کی زد میں عام لبنانی شہری ضرور آ رہے ہیں کیونکہ تیل کی قلت سے شرق اوسط کا یہ پیرس اندھیروں میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ انہیں فکر ہے کہ فوری امداد نہ ہونے کی صورت میں ان کا انجام بھی جنگ عظیم کے دوران اپنے آبا واجداد سے مختلف نہ ہو گا۔
لبنان کو درپیش بجلی کے جان لیوا بحران سے متعلق بیروت میں متعین امریکی سفیرہ ڈورتھی شیا نے ایک حالیہ منصوبہ کی حمایت کرتے ہوئے کہا ہے ’کہ اس منصوبے کے تحت مصر اور اردن سے شام کے راستے لبنان کو گیس فراہم کی جائے گی۔‘
مصر، شام، اردن اور لبنان کی جانب سے منظورہ کردہ مجوزہ امریکی منصوبے کو سیاسی اور انتظامی خطرات کی وجہ سے روبعمل نہیں لایا جا سکا۔ مجوزہ منصوبے کے لیے جس گیس پائپ لائن کو استعمال کیا جانا ہے، وہ یقینا کافی پرانی ہے۔
نیز شام پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے معاملہ مزید پیچیدہ ہوتا جا رہا ہے۔ ادھر مصر اور اردن بھی اسرائیلی گیس کے صارفین میں شامل ہیں۔ تل ابیب خود ان ملکوں کو گیس فراہمی کے معاملے پر نظرثانی کا عندیہ ظاہر کر چکا ہے۔
حزب اللہ کے رہنما سید حسن نصر اللہ نے ایک اعلان میں کہا تھا کہ ایران جلد ہی لبنان میں ہسپتالوں اور بیکریوں کے لیے تیل کے جہاز ارسال کرنے والا ہے، مذکورہ امریکی منصوبہ اس اعلان کے فوری بعد سامنے آیا۔
اس میں دورائیں نہیں کہ موت کا سامنا کرنے والے لبنانیوں کو آج فوری مدد کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں زیادہ دیر حزب اللہ کی متوازی معیشت کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا جا سکتا، تاہم اس کے ساتھ ساتھ مسئلے کا مستقل اور دیرپا حل ماضی کی غلطیوں کا ازالہ کیے بغیر ممکن نہیں کیونکہ علامت کے بجائے مرض کے علاج ہی میں لبنانیوں کی پریشانیوں کا حل مضمر ہے۔
یاد رہے کہ حزب اللہ کو لبنانی سیاست سے باہر نکالنے کی کوشش ملک کو خانہ جنگی کی طرف بھی دھکیل سکتی ہے۔
لبنان کو نارمل زندگی کی ڈگر پر لانے کے لیے اگرچہ امریکہ سمیت کسی کے پاس جادو کی چھڑی نہیں، تاہم بین الاقوامی کوششوں کے تناظر میں اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی قرارداد 1559 اور 1701 پر من وعن عمل درآمد کروا کے لبنان کی حاکمیت اور اسے مسلح جتھوں سے نجات ضرور دلائی جا سکتی ہے۔ اسلحے کی بھتات اور آزادانہ استعمال نے حال ہی میں چھ افراد کی جان لے لی۔
میری دانست میں پہلے پہل واشنگٹن، سول سوسائٹی کے ساتھ مل کر لبنان میں ان سماجی سیاسی تبدیلیوں کے لیے کام کرے جن کی وجہ سے حزب اللہ کو بیروت میں پر پرزے نکالنے کا موقع ملا۔ تاخیر کی صورت میں امریکہ ویسے ہی سب دیکھتا رہ جائے گا جیسے لندن اور پیرس پہلی عالمی جنگ کے موقع پر دیکھتے رہ گئے۔
خاکم بدہن! ایسا ہوا تو یہ بہت بڑی تباہی ہو گی جس کا نتیجہ پہلی جنگ عظیم کے موقع پر آنے والے ہلاکت خیز قحط سے بدتر ہو سکتا ہے۔ الحفیظ الامان!