مری کے دلخراش اور روح فرسا واقعات نے اس قوم کو بہت کچھ سکھایا ہے۔ جن خاندانوں کے پیارے بے یارومددگار مر گئے ان کے لیے اب زندگی کے خلا پورے کرنے ممکن نہیں ہوں گے۔ جو خاندان پورے کا پورا چلا گیا اس کی تو کہانی نسل سمیت ہی ختم ہو گئی۔
لیکن باقی قوم اس قومی سانحے کی وجہ سے ایسے حقائق سے روشناس ہوئی ہے جو اگرچہ پہلے سے عیاں تھے مگر بکھرے ہونے کی وجہ سے اکثر ہماری توجہ سے بچ جاتے تھے۔ ایک تو ہمیں یہ پتہ چلا کہ پاکستان کے دارالخلافہ اور نیوکلیئر طاقت کے مرکز اسلام آباد کے قریب یا دور ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔
آپ تربت کے دشت میں ہوں یا پکی اور بڑی متحرک مری کی شاہراہ پر، یہ نظام آپ کو اپنی کوتاہیوں کی وجہ سے ایسے نظر انداز کر دے گا کہ اگر موت نے آن لیا تو کوئی پوچھنے والا نہ ہو گا۔ ہم یہ بھی جان پائے کہ عدم تحفظ کا تعلق اکیلے پن سے نہیں۔
آپ ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں عملی طور پر ان کی نظروں کے سامنے بھی اپنی جان سے ہاتھ دھو سکتے ہیں اور وہ اس طرح کی بالشت بھر دور گھر کے مقیم مزے کی نیند سو رہے ہوں اور حکومت کو چلانے والے صرف 80کلومیٹر کے فاصلے پر برف باری اور عوام کی سیاحت کو خدا کی رحمت اور اپنی کامیابی قرار دے رہے ہوں اور صبح جب ٹھنڈے لاشے آہنی کفن میں راہ گیروں کی نشاندہی پر برآمد ہوں تو اس وقت حکومت کے سرکاری سوشل میڈیا پر اس عذاب کی کوئی خبر نہ ہو، صرف یہ بتایا جا رہا ہو کہ سٹاک مارکیٹ میں کاروبار نے کتنی ترقی کی اور یہاں سے آنے والے منافعے کا حجم کیا تھا۔
ایک اور بے رحمی کے بارے میں بھی پتہ چلا، اگر آپ بے موت مارے جا رہے ہیں یا مارے جا چکے ہیں تو بھی قصور آپ ہی کا ہو گا۔ جب آپ مری کی طرف جا رہے تھے تو تب آپ کی روانی حکومت کی سیاحت کو فروغ دینے کی ایک عظیم کہانی کے طور پر پیش ہو رہی تھی، جب آپ کے ارد گرد ہزاروں گاڑیاں آنے والے گھنٹوں میں بننے والے حالات سے بے خبر شہریوں کی خوشی کا سماں بنا رہی تھیں تب آپ سرکاری پروپیگینڈا مشینری کو چلانے کے لیے ایک اہم موضع تھے۔
لیکن جب آپ سرد عذاب میں پھنس گئے اور اس کے بعد ایک تکلیف دہ انجام کو پہنچے تو پھر آپ ایک ایسے مرحوم شہری میں تبدیل ہو گئے جو اپنی اور اپنے بچوں کی زندگی کی قدر نہ کر سکا، جس نے موسم کے حالات کو نہیں بھانپا، جس نے نامساعد حالات سے نمٹنے کی عسکری قسم کی پلاننگ نہ کی اور گوریلا جنگ لڑنے والے سازوسامان سے خود کو لیس نہ کرتے ہوئے موت کے گڑھے میں چھلانگ لگا دی۔
جب مری جانے والے ٹول پلازہ سے آپ کی گاڑی کو ہزاروں دوسری گاڑیوں کی لمبی قطار میں جانے کی اجازت دی گئی تھی تو تب آپ ریاست کے لیے سڑک ٹیکس وصول کرنے کا ایک ذریعہ تھے مگر حادثاتی موت کے بعد آپ ایسے ناعاقبت اندیش شہری بن گئے جس نے زبردستی اپنی گاڑی مری جانے والے راستے پر ڈال کر خواہ مخواہ ایک سانحے کو جنم دیا۔
جب آپ پانچ تاریخ کو تقریباً اتنی ہی گاڑیوں کے بیچ میں سے گھومتے گھامتے جان بچا کر واپس آ گئے تو اس وقت انتظامی امور کا تمام کریڈٹ محترم کمشنر، محترم ڈپٹی کمشنر اور چست پولیس انتظامیہ کے ان روشن ستاروں کا تھا جن سب نے اپنی پوسٹنگ کشمیر کے وزیر اعظم، وزیر اعظم ہاؤس کے معتبر والیان کی خاص بظاہر مرضی سے حاصل کی ہیں۔ مگر پھر دو دن بعد ٹریفک میں پھنس جانے پر آپ نے اسی مستعد اور قابل تعریف مقامی انتظامیہ کے انہی افسران کو پریشانی میں مبتلا کر دیا جن پر اس حد تک بے بسی طاری ہو گئی کہ وہ ایک سڑک کو کھلوانے کے لیے آدھا دن اور پوری رات کچھ نہ کر پائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اب چونکہ وزیراعظم پاکستان خود یہ فرما چکے ہیں کہ عوام کے ہجوم نے ضلعی انتظامیہ کو مفلوج کر دیا تھا لہذا اس کے بعد جو بھی انکوائری ہو گی اس میں قصور آپ کا ہی نکلے گا۔ قوم کو یہ بھی پتہ چلا کہ ہمارے حکمرانوں کی حس مزاح بدترین حالات میں بھی پھڑک سکتی ہے۔ کسی نے آپ کو کہا کہ سیاحت کو بالکل فروغ دیں لیکن ایسے نہیں جیسے آپ نے فروغ دیا۔ ساتھ یہ مشورہ بھی دیا کہ اب باقی شہری گھر میں بیٹھ کر مونگ پھلیاں کھائیں اور ایک دوسرے کے اوپر سنو سپرے کر کے برف باری سے ایسے ہی لطف اندوز ہوں جیسے معاشی ترقی کے خیالی پلاؤ سے وزرا آپ کے روزانہ پیٹ بھرتے ہیں۔
یہ بھی سمجھ میں آیا کہ آپ ٹھںڈ میں مریں یا گرمی میں، معیشت ڈوبے یا کشمیر ہاتھ سے پھسلے، اسلام آباد میں ترجیعات کا تعین ہو چکا ہے، یہاں پر توجہ صرف شہباز شریف کے خلاف نیا مقدمہ کرنے، اپنے سیاسی مخالفین کو طنز اور طعنے کے نشتروں سے چھلنی کرنے اور اگلے پانچ سال حکومت کرنے کے عزم اور عہد کے علاوہ کوئی اور معاملہ اہمیت کا حامل نہیں۔
مگر سب سے بڑی اور پتے کی بات یہ معلوم ہوئی کہ اس ملک میں رہنے کے لیے آپ کو اپنا تمام بندوبست خود کرنا ہے۔ تعلیم، صحت، رزق، چھت، بجلی، پانی وغیرہ تو پہلے سے ہی آپ کی انفرادی ذمہ داری ہے، اب موسم کی تبدیلیوں سے اپنی جان پر پڑنے والے اثرات کو بھانپنا اور اس کا تجزیہ کرنا بھی ان ذمہ داریوں میں شامل ہو چکا ہے۔
آپ کو یہ دیکھنا ہو گا کہ سڑک پر قدم رکھتے ہوئے آپ کن خطرات سے دوچار ہو سکتے ہیں اور ان سے بچنے کے لیے آپ کے پاس کیا تدابیر اور وسائل ہیں۔ ہمارے سابق انقلابی دوست اعتزاز احسن درست کہتے تھے کہ ریاست ماں جیسی ہے۔ مری کے سانحے کے بعد پتہ چلا کہ یقیناً وہ ماں جیسی ہے مگر وہ ماں عوام کی نہیں صرف ان کی ہے جن کے گھروں میں رہتی ہے۔
باقی قوم بن ماں کے بچے کی طرح ہے۔ خوش قسمت ہوا تو بچ جائے گا، کم قسمت ہوا تو ٹھٹر کر مرے گا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی رائے پر مبنی ہے ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔