حالیہ برف باری کے دوران مری اور گلیات میں کئی مقامات پر سیاحوں کی المناک اموات کے بعد عوام میں ایک نئی بحث شروع ہو گئی کہ ان اموات کا ذمہ دار کون ہے؟
مشکل حالات میں برف باری میں پھنسے افراد کو بچانا کس کی ذمہ داری تھی؟ یہ افراد برف باری میں پھنسے کیسے؟ سڑکوں پر ٹریفک جام کیوں ہوئی؟ ٹریفک پولیس اور ضلعی انتظامیہ نے گنجائش سے زائد گاڑیوں کو داخل کیوں ہونے دیا؟ ریسکیو آپریشن تاخیر سے کیوں شروع ہوا؟
ان سوالات کے جواب جاننے سے پہلے ہمیں ان اجتماعی رویوں کو دیکھنا ہو گا جو ایسے سانحوں کی بنیاد بنتے ہیں۔ ہمیں جاننا ہو گا کہ ایسے ہنگامی حالات میں ریاستی، سماجی اور انفرادی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ ہمیں ان رویوں کو سمجھنا ہو گا جن کی وجہ سے ہم اپنی یا اپنے ساتھ مشکل میں پھنسے دوسرے افراد کی زندگیاں خطرے میں ڈال دیتے ہیں۔
کسی بھی اندوہناک سانحے کے بعد سب کی نظریں حکومت کی طرف اٹھتی ہیں کہ اس ہنگامی صورت حال سے بچاؤ کے لیے ریاستی اقدامات کیا تھے؟ ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کے لیے کون سا ادارہ مرکزی ہے؟ کس ادارے نے موسمی ہنگامی حالات کے حوالے سے حوالے سے پیشگی انتظامات کو یقینی بنانا ہے؟
ہنگامی صورتحال میں عوام کی جان و مال کا تحفظ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی اور صوبائی اداروں کی ذمہ داری ہے۔ موسمی خطرات کے حوالے سے عوام اور متعلقہ اداروں کو خبردار کرنا اور ان سے اس حوالے سے انتظامات کروانا بھی ان اداروں کی ذمہ داری ہے۔
پنجاب کے قدرتی آفات سے نمٹنے کے صوبائی ادارے کی ویب سائٹ کرونا اور سموگ کے مسائل کے حوالے سے تو خاصی معلومات فراہم کرتی ہے لیکن برف باری کے خطرے اور اس ہنگامی صورتحال سے بچاؤ کی واجبی سی معلومات مہیا ہیں۔ ہنگامی حالات میں سوشل میڈیا کا مثبت استعمال بھی ان اداروں کو مشکل کے شکار عوام کی رہنمائی میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے لیکن ان اداروں کی سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجودگی بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
سیاحت کے فروغ کی وزارت میں افسران کی توجہ شاید سیاحوں کو ان علاقوں میں جانے کے لیے راغب کرنا ہے۔ محفوظ سیاحت اور کسی سیاحتی مقام پر ہنگامی صورت حال سے کیسے نمٹنا ہے اس کی کوئی پالیسی دکھائی نہیں دیتی۔
آفات سے بچاؤ کی اتھارٹی، ضلعی انتظامیہ، ریسکیو کے ادارے اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس لیے نہیں بنائے جاتے کہ وہ کسی سانحے کے رونما ہونے کا انتظار کریں بلکہ وہ پیشگی اس کی پیش بندی میں جت جاتے ہیں اور ایسی پلاننگ کرتے ہیں جس سے ایسے سانحے رونما ہی نہ ہوں۔
مری میں ہونے والے حالیہ سانحے میں ان اداروں کے مابین باہمی کوآرڈینیشن کا فقدان ہی شاید واحد وجہ تھی جس کی وجہ سے سیاحوں کو بچایا نہ جا سکا۔
ہنگامی امداد کے ادارے نے راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ اور عوام کو مری میں ہنگامی حالت کے نفاذ کے حوالے سے تو آگاہ کر دیا لیکن اس ہنگامی آفت سے بچاؤ کے پیشگی انتظامات سے متعلق بتانا شاید ان کی ذمہ داری ہی نہیں؟ آٹھ جنوری کو صوبائی ادارے کی ویب سائٹ پر ایک مبہم سا پیغام دے دیا گیا جس میں مری کے موسم کا تذکرہ ہی نہیں ہے۔
برفانی طوفان کے حوالے سے پیشن گوئی محکمہ موسمیات کی ذمہ داری ہے اور ان کی طرف سے گذشتہ ایک ہفتے سے مسلسل برف باری کے حوالے سے مطلع کیا جا رہا تھا۔ ان کے پیغامات میں بنیادی نکتہ برف باری کی اطلاع تھا نہ کہ عوام کو سمجھانا کہ اس برف باری کے دوران سفر کرنے میں کیا مشکلات آ سکتی ہیں اور کیسے ان مشکلات کو کم کیا جا سکتا ہے؟
ایک سیاح جس نے کبھی زندگی میں برف سے ڈھکی سڑک پر گاڑی چلائی نہیں یا پھر اسے برف باری کے دوران سفر درپیش نہیں ہوا تو اس کو برف باری کے دوران پیش آنے والے مسائل کا اندازہ ہی نہیں ہوتا۔ یہ لاعلمی بسااوقات مری جیسے بڑے سانحوں کا باعث بنتی ہے۔
پاکستان میں محکمہ موسمیات کے عوامی مراسلوں جن میں موسم کے حوالے سے پیش گوئی کی گئی ہو، کا عام فہم ہونا ضروری ہے۔ مثلاً برف باری کے نتیجے میں کس علاقے میں سیاحوں کو کیسی مشکلات پیش آ سکتی ہیں اور ان سے بچاؤ کیسے ممکن ہے۔
برف باری کے حالیہ طوفان سے بچانے کے لیے ایک اہم کردار ٹریفک پولیس کا تھا جنہوں نے ٹریفک کے نظام کو بحال رکھنا تھا۔ ٹریفک پولیس کے دائرہ اختیار میں نہیں کہ وہ کسی خاص علاقے میں لوگوں کی نقل و حرکت کو محدود کرے ۔ یہ ذمہ داری بنیادی طور پر ضلعی انتظامیہ کی ہے۔ اگر راولپنڈی اور اسلام آباد کے ضلعی کمشنر صاحبان بروقت فیصلہ کر کے سیاحوں کی نقل و حرکت محدود کر دیتے تو شاید یہ سانحہ پیش نہ آتا۔
تحصیل مری کی ایک بدقسمتی یہ بھی ہے کہ اس شہر تک رسائی کی مرکزی شاہراہ شہر اقتدار سے گزرتی ہے جس کا انتظام اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ کے پاس ہے اور راولپنڈی ضلعی انتظامیہ بھی ان پر انحصار کر کے مری جانے والے سیاحوں کی رہنمائی نہیں کرتی۔
اگر اسلام آباد ٹول پلازہ سے گاڑیوں کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا جائے تو مری جانے والوں کی بہتر رہنمائی ممکن ہے۔
ہنگامی صورت حال میں ذرائع ابلاغ کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔ ریڈیو پاکستان اور اسلام آباد ٹریفک پولیس ریڈیو کے ذریعے ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کو سیاحوں کو بنیادی احتیاط کے حوالے سے بھی خبردار کرنا چاہیے تھا جس میں ٹائروں پر چین ہونا، گاڑی میں ہیٹر چلا کر نا سونا اور دھویں کے اخراج کو بحال رکھنا جیسی اہم معلومات تھیں۔
چونکہ تمام گاڑیوں میں ریڈیو کی سہولت موجود ہوتی ہے تو اس ذریعے کا بہتر استعمال اس ہنگامی آفت سے بچانے میں مددگار ہو سکتا تھا۔
ہلاک ہونے والے زیادہ تر افراد ان گاڑیوں میں سوار تھے جو فور بائی فور نہیں۔ یہ کاریں عام دنوں میں تو پہاڑی علاقوں میں سفر کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں لیکن برف باری میں ان گاڑیوں میں سفر نہ صرف اپنے لیے خطرے کا باعث ہے بلکہ دوسروں کی زندگیاں بھی خطرے میں ڈال دیتا ہے۔
برف باری کے دوران اناڑی ڈرائیوروں اور غیر مناسب گاڑیوں کی وجہ سے ٹریفک میں تعطل پیش آیا اور اس کے نتیجے میں بہت سے افراد کو تکلیف کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹریفک پولیس کے اہلکار گاڑی کی حالت کا اندازہ لگا کر بھی اسے گلیات کی طرف سفر سے روکتے تو شاید کل ہونے والے سانحے سے بچا جا سکتا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برف باری کے دوران جب کسی جگہ ٹریفک کا اژدہام پیدا ہوتا ہے تو اس سڑک کی بحالی بہت مشکل ہو جاتی ہے کیوں کہ سڑک کی بحالی کرنے والے عملے کو عوامی تعاون نہیں ملتا اور نہ ہی سڑکوں پر رش کی وجہ سے ان کی رسائی رہتی ہے۔
بہت سی جگہوں پر رش ہونے کی وجہ منچلوں کا تصاویر بنانے کے لیے رکنا اور راستوں کو بلاک کر دینا بھی ہے۔ ان کو اندازہ نہیں ہوتا کہ پرانی گاڑیاں اگر موسم کی شدت میں بند ہو گئیں تو دوبار چالو کرنے میں کتنی دقت درپیش ہو گی۔ برف باری کے دوران ذرائع آمدو رفت کے محدود ہونے کی وجہ سے امدادی سرگرمیاں شہر کے نواح تک ممکن ہوتی ہیں دور دراز کے علاقوں میں مدد کا پہنچنا بھی مشکل ہو جاتا ہے۔
ہماری مرکزی شاہراہوں پر موٹر مکینک کی سہولت شام ڈھلنے کے بعد میسر آنا مشکل ہے تو پہاڑی علاقوں میں برف باری کے دوران کسی کی گاڑی خراب ہونے کا مطلب ہزاروں افراد کی تکلیف کی شکل میں بھی نکل سکتا ہے کیونکہ نہ تو اس خراب گاڑی کو ہٹایا جا سکتا ہے اور نہ ہی دوسری گاڑیوں کے لیے راستہ بچتا ہے اور یہ صورت حال اس وقت اور گھمبیر ہو جاتی ہے جب اس جگہ پر سینکڑوں گاڑیاں اکٹھی ہونی شروع ہو جائیں اور برف باری بھی شدید ہو۔
ہمارے ملک میں ریسکیو اور ہنگامی امداد کی تربیت کا کوئی نظام ہی موجود نہیں کہ مشکل گھڑی میں تربیت یافتہ افراد لوگوں کو نہ صرف ریسکیو کر سکیں بلکہ وہ ریاستوں اداروں کے ان مشکل حالات میں معاون ثابت ہوں۔ ہنگامی حالات میں غیر تربیت یافتہ افراد بجائے مددگار ثابت ہوتے ہوئے ہنگامی حالت میں بہتری لائیں، وہ صورت حال اور خراب کر دیتے ہیں۔
آفات کے بچاؤ کی اتھارٹی اور ارباب اختیار اگر مستقبل میں ایسے سانحات سے بچنے کے خواہش مند ہیں تو اس کے لیے ٹھوس اقدامات کرنے ہوں گے جس میں عوامی تریبت، اداروں کی باہمی کوآردینیشن اور درست لمحے بہتر فیصلے شامل ہیں۔ سیاحت کی بحالی کے لیے عوام اور ریاستی مشترکہ کاوشیں ہی سیاحوں کے ذہن سے اس سانحے کی یاد محو کر سکتی ہیں۔