’یہ قیامت کی رات تھی۔ یقین نہیں تھا ہم صبح تک زندہ رہیں گے۔‘
تلہ گنگ کے رہائشی 35 سالہ عامر رشید کل اپنے پانچ دوستوں کے ساتھ نتھیا گلی اور مری کے درمیان کلڈنہ کے مقام پر برف باری میں پھنسے ہوئے ہیں۔ یہی وہ مقام ہے جہاں گذشتہ رات گاڑیوں میں بیس کے لگ بھگ سیاحوں کی موت ہوئی ہے۔
انڈیپنڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے عامر رشید نے بتایا کہ وہ اپنے بھائی اور تین دوستوں کے ساتھ نجی کام کے سلسلے میں ایبٹ آباد آئے تھے، ’سوچا واپسی پر مری کے راستے چلتے ہیں، برف باری بھی دیکھ لیں گے۔‘
’ہم پرسوں ایبٹ آباد سے نکلے اور رات نتھیا گلی میں قیام کیا۔ نتھیا گلی سے کل صبح نکلے اور مری کے لیے روانہ ہوئے۔ دریا گلی کے مقام پر پہنچے تو راستہ بند تھا۔‘
عامر کے بقول برف باری بھی کافی زیادہ تھی مگر روڈ بند ہونے کی بڑی وجہ یہ تھی کہ کئی سیاح اپنی گاڑی روڈ پر ہی کھڑی کر کے چلے گئے تھے اور دوسری گاڑیوں کا راستہ بند ہو گیا۔
انہوں نے بتایا: ’مری سے چند کلومیٹر پہلے ہی ہم پھنس گئے، کل دن دو بجے سے اب تک یہیں پھنسے ہوئے ہیں۔‘
عامر کہتے ہیں کہ ’رات کو جب ہم رکے ہیں تو برف باری اتنی تیز تھی کہ گاڑی اس میں دھنسنا شروع ہو گئی تھی۔ صبح تک گاڑی اس میں چار فٹ تک دب گئی تھی۔ اور گاڑی کے دروازے نہیں کھل رہے تھے۔‘
’رات کو ہم کچھ وقت ہیٹر چلا لیتے اور تھوڑی دیر بند کر دیتے اور شیشے کھول کر ہوا آنے دیتے۔ ہم نے پوری رات جاگ کر گزاری۔ یہاں لوگوں کی زیادہ اموات اس وجہ سے ہوئیں کہ انہوں نے شیشے بند کر کے گاڑیوں میں ہیٹر چلائے اور اندر ہی سو گئے۔ ہوا بند ہونے کی وجہ سے ان کا دم گھٹ گیا۔‘
اس مقام پر موجود اسلام آباد کے رہائشی 32 سالہ وقاص مشتاق بھی اپنے چار دوستوں کے ساتھ موجود ہیں۔ وہ مری سے نتھیا گلی جانا چاہ رہے تھے مگر ان کی گاڑی بھی برف باری کی وجہ سے پھنس گئی۔
وقاص کے مطابق پوری رات سینکڑوں کی تعداد میں سیاح گاڑیوں میں پھنسے رہے۔ جن لوگوں کو ارد گرد کسی محفوظ جگہ کا پتا تھا وہ گاڑیاں چھوڑ کر چلے گئے۔ ’جو ہماری طرح ناواقف تھے رات بھر کسی غیبی مدد کا انتظار کرتے رہے۔‘
وقاص بتاتے ہیں کہ اس مقام پر رات کو روشنی اور کھانے پینے کا کوئی بندوبست نہیں تھا۔ ’جو لوگ اپنے ساتھ کھانے پینے کی اشیا پانی یا گرم کپڑے لے کر آئے ان کے لیے پھر کچھ نہ کچھ آسانی تھی۔ جو خالی ہاتھ آ گئے ان کا برا حال رہا۔‘
’برف باری کی وجہ سے رات بھر درخت ٹوٹ کر گاڑیوں پر گرتے رہے۔ جیسے ہی کوئی درخت گرتا، چیخ و پکار شروع ہو جاتی۔‘
’گاڑیوں پر درخت گرنے کی وجہ سے کئی لوگ زخمی ہوئے مگر انہیں وہاں سے ہسپتال لے جانے کا کوئی انتظام تھا اور نہ ہی انہیں وہاں پر فرسٹ ایڈ دی جا سکتی تھی۔ خوف اتنا تھا کہ کوئی گاڑیوں سے باہر نکلنے کو تیار نہیں تھا۔‘
وقاص کے بقول صبح روشنی پھلنا شروع ہوئی تو ہر طرف ایک سکوت تھا۔ ’مجھے تو ایسا لگا کہ ہمارے علاوہ کوئی زندہ نہیں بچا۔ ہم نے گاڑیوں سے برف ہٹانا شروع کی۔ شیشوں پر دستک دے کر لوگوں کو جگانا شروع کیا۔ کچھ گاڑیوں میں لوگ جاگ رہے تھے۔ وہ بھی باہر نکل آئے۔ کچھ گاڑیوں میں لوگ بے ہوش تھے۔ ہم نے انہیں ہوش میں لانے کی کوشش کی۔‘
’ہمارے قریب ہی ایک گاڑی میں چار نوجوانوں موجود تھے، ہم نے ان کی گاڑی کا شیشہ صاف کر کے دیکھا تو وہ بے ہوش تھے۔ کافی دیر کوشش کے بعد بھی وہ ہوش میں نہیں آئے تو ہم نے دروازہ توڑ دیا۔ ان میں سے تین مر چکے تھے۔ ایک کی سانس ابھی چل رہی تھی۔ بعد میں پتا چلا اس کی بھی موت ہو گئی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’دن چڑھے جب اس مقام کی تصاویر اور ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہونا شروع ہوئیں تو راولپنڈی، اسلام آباد کی ضلعی انتظامیہ حرکت میں آئی۔‘ مقامی لوگوں، پولیس، ریسکیو 1122 کے علاوہ پاکستانی فوج کے دستے بھی برف میں پھنسے لوگوں کو نکالنے وہاں پہنچے۔ مرنے والوں کی لاشوں اور زخمیوں کو نکالنے کا کام جاری ہے اور ابھی تک سیاحوں کی ایک بڑی تعداد انہی علاقوں میں پھنسی ہے۔ ان میں خواتین اور بچے بھی شامل ہیں۔
برف باری میں پھنسے عامر رشید نے بتایا کہ ’ابھی ریسکیو کی ٹیمیں یہاں پہنچی ہیں۔ آرمی کے لوگ بھی آ گئے ہیں۔ دو کیمپ قائم کیے ہیں۔ لوگوں کو ہیٹر لگا کر دیے ہیں۔‘
عامر رشید نے بتایا کہ مری کے علاقوں میں بجلی بند ہے۔ کیمپ میں بھی سخت اندھیرا ہے۔ ان کے بقول ’مقامی لوگ گھروں سے کھانا لا کر دے رہے ہیں۔‘
’جس گاڑی میں ہم تھے اس سے دس پندرہ گاڑیاں چھوڑ کر آگے کھڑی گاڑی میں آٹھ لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ ریسکیو اہلکار اب ان کی لاشیں نکال کر لے گئے ہیں۔ جہاں پر ہماری گاڑی کھڑی ہے وہاں سے تقریباً ڈیڑھ کلو میٹر پیچھے تک روڈ کھل سکی ہے ابھی تک مشینیں ہم تک نہیں پہنچ پائیں۔ اللہ کرے روڈ کھل جائے۔‘
انہوں نے سیاحوں سے اپیل کی ہے کہ ان دنوں میں مری آنے کا پروگرام نہ بنائیں۔ ’بھائی یہاں بہت ذلالت ہے! ہزاروں کی تعداد میں گاڑیاں کھڑی ہیں۔ لوگ روڈ میں گاڑیاں چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ اب مشینوں کو گزرنے کا راستہ نہیں مل رہا۔‘