پاکستان کرکٹ بورڈ کے چیئرمین اور سابق کپتان رمیز راجہ نے تجویز پیش کی ہے کہ پاکستان، بھارت، آسٹریلیا اور انگلینڈ ایک چارملکی ٹورنامنٹ سپر سیریز ہر سال کھیلیں، جس سے آئی سی سی کی آمدنی میں اضافہ ہوگا اور اس اضافی آمدنی کو آئی سی سی کے ارکان ممالک میں حیثیت کے مطابق تقسیم کیا جاسکتا ہے۔
ان کے خیال میں آئی سی سی اس کا فارمیٹ بنا سکتی ہے اور چاروں ممالک ایک ایک سال اس کی میزبانی کرسکتے ہیں۔
رمیز راجہ سمجھتے ہیں کہ ان کی یہ تجویز گیم چینجر بن سکتی ہے اور مستقبل قریب میں کرکٹ کیلنڈر کا سب سے اہم ایونٹ بن سکتی ہے۔
رمیز راجہ کی یہ تجویز اس وقت سامنے آئی ہے جب پاکستان اپنے کرکٹ کیلنڈر کو بڑھانے کی کوشش کررہا ہے اور ماضی کے برعکس بڑی کرکٹ ٹیموں کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہے۔
رمیز راجہ ماضی میں زمبابوے کے ساتھ سیریز پر تنقید کرتے رہے ہیں۔ وہ گذشتہ سال ہونے والی سیریز کو وقت کا ضیاع قرار دے چکے ہیں، اس لیے ان کی کوشش ہے کہ اہم ٹیموں سے پنجہ آزمائی کی جائے۔
رمیز راجہ، جن کی وجہ شہرت کمنٹری ہے اور اپنی بے ساختہ کمنٹری کے باعث دنیا بھر میں پسند کیے جاتے ہیں۔ ان کی کمنٹری کی مقبولیت نے انہیں ’آواز پاکستان‘ کا لقب بھی عطا کیا ہوا ہے۔
رمیز راجہ جس روز سے چیئرمین بنے ہیں وہ ہر وقت پاکستان کرکٹ کی ترقی اور عالمی ساکھ کی بحالی کے لیے کوشاں ہیں۔ اس مقصد کے لیے ان کے کچھ ایسے فیصلے سامنے آئے ہیں جو پی سی بی کی روایت اور ماضی کی انتظامیہ کے رویے کے برعکس ہیں۔
ان کا سب سے مقبول فیصلہ کھلاڑیوں کی تنخواہوں میں اضافہ اور فرسٹ کلاس کرکٹ کا فرسٹ کلاس لیول پر انعقاد ہے۔
گذشتہ روز ان کے سوشل میڈیا پر اس بیان نے تیزی سے اپنی طرف توجہ مبذول کرائی کہ پاکستان، بھارت، انگلینڈ اور آسٹریلیا ہر سال ایک چار ملکی ٹی ٹوئنٹی ٹورنامنٹ کھیلیں جس سے آئی سی سی کے ریونیو میں بہت اضافہ ہوگا اور شائقین ایک اعلی پیمانے کی کرکٹ دیکھ سکیں گے۔
اس تجویز کے لیے آئی سی سی کا پلیٹ فارم استعمال کرانا نہایت دانشمندانہ ہے جس سے کسی بھی فریق کا لاتعلق رہنا ممکن نہیں ہوگا۔
کیا بھارت اس تجویز سے اتفاق کرے گا؟
بھارتی کرکٹ بورڈ نے دس سال سے پاکستان سے کرکٹ تعلقات منقطع کررکھے ہیں اور ماضی میں بھارتی بورڈ ہر تجویز یا ڈائیلاگ مسترد کرچکا ہے۔
تاہم اب بورڈ کے سربراہ سابق کپتان سارو گنگولی ہیں جو عملی کرکٹ سے یہاں تک پہنچے ہیں اور سچ یہ ہے کہ وہ پاکستان کےساتھ کرکٹ کھیلنا چاہتے ہیں۔
لیکن بھارتی حکومت کی مداخلت کے باعث بورڈ آزادانہ فیصلے کرنے سے قاصر ہے اور جب بھی پاکستان سے کھیلنے کی بات ہوتی ہے تو بائیکاٹ کا لفظ ٹرینڈ کرنے لگتا ہے۔
بھارت براہ راست پاکستان سے سیریز نہیں کھیلتا ہے لیکن آئی سی سی ایونٹس میں اس کا کھیلنا مجبوری ہوتی ہے۔ جہاں زبردست دباؤ کے باوجود وہ میچ نہیں چھوڑ سکتے۔
گذشتہ ورلڈ کپ میں بھی بائیکاٹ کا شور تھا تاہم بورڈ نے اس تجویز سے اتفاق نہیں کیا تھا۔
اب رمیز راجہ کی اس تجویز کے بعد کیا بھارت اس دفعہ نرمی دکھائے گا؟ شاید اسی لیے رمیز راجہ نے اس ٹورنامنٹ کا میزبان آئی سی سی سے بننے کے لیے کہا ہے تاکہ پاکستان براہ راست میزبان نہ ہو اور معاملہ کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔
گنگولی بھی ایسی ہی تجویز دے چکے ہیں
رمیز راجہ کی تجویز کوئی پہلی تجویز نہیں ہے۔ بلکہ بھارتی بورڈ کے سربراہ سارو گنگولی بھی دو سال قبل کلکتہ کے ایک اخبار کوانٹرویو دیتے ہوئے ایک چار ملکی ٹورنامنٹ کی تجویز دے چکے ہیں۔
لیکن انہوں نے آسٹریلیا، انگلینڈ اور بھارت کا ذکر کیا تھا۔ پاکستان کا چوتھے ملک کی حیثیت سے شمولیت کا کوئی تذکرہ نہیں تھا۔ غالباً وہ مجبوری کی وجہ سے نام نہیں لے رہے تھے ورنہ آمدنی کے لحاظ سے سب سے زیادہ منافع بخش میچ ان دو ممالک کے درمیان ہی ہوتا ہے۔
ابھی یہ نہیں طے ہے کہ انگلینڈ اور آسٹریلیا بھی کھیلنا چاہیں گے، لیکن پیسہ آتے ہوئے کسی کو برا نہیں لگتا اور پھر اتنی آسانی سے آئے تو سونے پر سہاگہ۔
عملی شکل کیا ہوسکتی ہے؟
بھارت اور پاکستان کے کرکٹ تعلقات پر جمی ہوئی برف کو شاید اس تجویز کی حرارت مائع سالموں میں تبدیل کردے، لیکن معاملہ ہنوز دلی دوراست والی بات ہے۔
اس لیے عملی شکل زیادہ بہتر ان دونوں ملکوں سے باہر کھیلنا ہوگی۔ جہاں دونوں ملکوں کی حکومتوں اور عوام کے پاس مخالفت کاجواز نہیں ہوگا۔
آسٹریلیا آئیڈیل وینیو ہوسکتا ہے
آسٹریلیا مختلف ممالک پر مشتمل ٹورنامنٹ ماضی میں کامیابی سے منعقد کرچکا ہے۔ جس میں میزبان کے ساتھ دو اور ممالک کھیلتے تھے، جس کی سپانسرشپ تمباکو بنانے والی کمپنیاں کرتی تھیں۔
1980 کی دہائی میں تواتر کے ساتھ ہر سال کوئی دو ممالک آسٹریلیا کا دورہ کرتے تھے اور تینوں ممالک مل کر کھیلتے تھے۔ پاکستان نے بھی متعدد دفعہ ایسے ٹورنامنٹ کھیلے ہیں تاہم بہت زیادہ کرکٹ ہونے کی وجہ سے وہ سلسلہ موقوف ہوگیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رمیز راجہ پر امید ہیں کہ ان کی اس تجویز کا خیر مقدم کیا جائے گا اور اس سے ایک نیا ایونٹ شروع ہوجائے گا، لیکن وہ اس بات سےشاید متفق نہ ہوں کہ پاکستان اپنے گراؤنڈز پر میزبانی نہ کرے۔ ان کی کوشش ہے کہ پاکستان ایک مصروف کرکٹ سینٹر بن جائے اورٹورنامنٹ کی میزبانی پاکستان کو بھی ملے۔
کرکٹ آج ایک کھیل سے زیادہ انڈسٹری بن چکا ہے اور کرکٹ سپانسر شپ تجارتی اداروں کی اولین ترجیح ہے۔
بھارت اور پاکستان میں کرکٹ پر اب لوگ سرمایہ کاری کرنا چاہتے ہیں ان کی خواہش بے مقصد نہیں ہے۔ کیونکہ کرکٹ کی سرمایہ کاری میں نقصان کا شائبہ نہیں ہے۔
رمیز راجہ نے سپر سیریز کی تجویز دے کر عالمی کرکٹ کو ایک نیا خیال دے دیا ہے، لیکن کیا وہ اپنی خواہش کو عملی جامہ پہناسکیں گے ؟
یہ تو آنے والا وقت بتائے گا کہ کیا یہ ممکن ہے۔ لیکن ایک بات واضح ہے کہ پی سی بی کی باگ ڈور اس وقت ایک پرعزم انسان کے ہاتھ میں ہے جس کو اگر موقع ملا تو وہ پاکستان کو بھارتی بورڈ کے برابر لا کھڑا کرے گا، جس نے چند ہی مہینوں میں جمود کی فضا کومتحرک کردیا ہے۔
قومی ٹیم سے پی ایس ایل فرنچائزز تک ان کی کوششوں اور توجہ نے نئے فارمیٹس روشناس کرا دیے ہیں۔
بے داغ کیرئیر کے حامل روشن خیال اور عملیت پسند رمیز راجہ اپنی نئی تجویز کے ساتھ ایک بار پھر دنیا بھر میں خبروں کا عنوان بن گئے ہیں۔