پاکستان میں تعینات افغانستان کے سفیر سردار احمد خان شکیب نے کہا ہے کہ افغان طالبان حکومتِ پاکستان اور کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے درمیان معطل امن مذاکرات کو بحال کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
ٹی ٹی پی نے گذشتہ ماہ ہی حکومتِ پاکستان پر قیدیوں کی رہائی کے معاہدے اور مذاکراتی کمیٹیوں کی تشکیل سمیت شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگاتے ہوئے افغان طالبان کی حمایت سے عمل میں لائی گئی ایک ماہ کی جنگ بندی کے خاتمے کا اعلان کیا تھا۔
جبکہ پاکستانی فوج کے میڈیا ونگ آئی ایس پی آر کے سربراہ نے کہا ہے کہ جنگ بندی کے خاتمے کے بعد سے اس گروپ کے خلاف مسلح کارروائیاں دوبارہ شروع کر دی گئی ہیں۔
گذشتہ سال طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد اسلام آباد میں افغان سفیر کا عہدہ سنبھالنے والے سردار احمد خان شکیب نے ایک انٹرویو میں عرب نیوز کو بتایا: ’افغانستان کی اسلامی امارات پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی دونوں کو مذاکرات کی میز پر واپس لانے اور اپنے مسائل کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کے لیے قائل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ (افغان طالبان کی جانب سے) ثالثی کا عمل ختم نہیں ہوا ہے بلکہ اسے ’ملتوی‘ کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا: ’جیسا کہ ہم نے عہد کیا تھا، ہم افغان سرزمین کو دوسرے ممالک اور ان کے مفادات کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے اور ہم اپنے اس وعدے کو پورا کریں گے۔ اس لیے اگر یہ مسئلہ بات چیت کے ذریعے حل نہیں کیا گیا تو یہ مستقبل میں ہمارے لیے بہت سے مسائل پیدا کر دے گا۔‘
پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر باڑ لگانے پر اسلام آباد اور کابل کے درمیان تناؤ کے بارے میں پوچھے جانے پر احمد خان شکیب نے کہا کہ افغانستان تمام مسائل کو سفارتی ذرائع سے حل کرنے کی خواہش رکھتا ہے۔
پاکستان نے کابل کے احتجاج کے باوجود 2,600 کلومیٹر طویل سرحد کے زیادہ تر حصے پر باڑ لگا دی ہے۔ حالیہ ہفتوں میں افغان طالبان کے سرحدی محافظوں کی جانب سے باڑ ہٹانے یا تعمیراتی کام میں خلل ڈالنے کے متعدد واقعات پیش آئے ہیں۔
گذشتہ افغان حکومتوں اور اسلام آباد کے درمیان تعلقات کی خرابی کی ایک بڑی وجہ باڑ لگانا تھا۔ موجودہ تعطل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ اسلام آباد سے قریبی تعلقات کے باوجود یہ معاملہ طالبان کے لیے بھی ایک متنازع معاملہ ہے۔
شکیب نے کہا: ’افغانستان اور پاکستان سے دو وفود اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے نامزد کیے گئے ہیں جو حال ہی میں ڈیورنڈ لائن کے حوالے سے پیش آیا ہے اور باڑ لگانے کے منصوبے سے متعلق ہے جس پر تقریباً 94 فیصد کام مکمل ہو چکا ہے۔‘
ان کے بقول: ’ہم حکومتی نقطہ نظر سے ڈیورنڈ لائن کے بارے میں فیصلہ نہیں کر سکتے، یہ میرا یا وزیر خارجہ کا یا پوری حکومت کا فیصلہ نہیں ہے۔ اس کا تعین ایک جامع فیصلے کے ذریعے کیا جانا چاہیے جو افغانستان کی قوم کرے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغان سفیر نے پاکستانی حکومت اور دیگر پڑوسیوں سے اپیل کی کہ وہ طالبان انتظامیہ کو تسلیم کریں اور باقی دنیا کے لیے ایک مثال قائم کریں۔
اگست میں طالبان کی جانب سے اقتدار پر کنٹرول کے بعد سے کسی بھی ملک نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا ہے جب کہ ملک کو شدید اقتصادی اور انسانی بحرانوں کا سامنا کرنے کے باوجود بیرون ملک افغانستان کے اربوں ڈالر کے اثاثے اور فنڈز بھی منجمد کر دیے گئے ہیں۔
شکیب نے کہا: ’ان (بین الاقوامی برادری) کے اپنے چیلنجز ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ وہ تنہا ایسا (افغانستان کو تسلیم) نہیں کر سکتے اور اس عمل میں کچھ دوسرے ممالک کے شامل ہونے کی ضرورت ہے۔ ہماری عالمی برادری خاص طور پر اپنے پڑوسیوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ افغانستان میں قائم ہونے والی اسلامی حکومت کو تسلیم کریں۔‘
افغان سفیر نے مزید کہا کہ کابل انتظامیہ نے خود مختاری، سلامتی، روزگار کی تخلیق اور پڑوسی ریاستوں کے ساتھ تعاون سمیت خود مختار حکومت کی تمام ضروریات کو پورا کیا۔
انہوں نے کہا: ’لہذا یہ افغانوں کا بنیادی حق ہے جسے تسلیم کیا جائے۔ ہم ایک بار پھر بین الاقوامی برادری سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ہمیں تسلیم کریں جو ہمیں ایک نئے دور کی طرف لے جائے گا اور یہ عمل عالمی برادری کے تمام اراکین اور بین الاقوامی اداروں کے ساتھ رابطہ قائم کرے گا۔‘
سردار شکیب نے کہا کہ ان کی حکومت کی بین الاقوامی شناخت سے افغانستان کی مالی پریشانیوں کو حل کرنے میں بھی مدد ملے گی جس کے حوالے سے اقوام متحدہ اور دیگر امدادی ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ انسانی تباہی کے دہانے پر ہے۔
انہوں نے کہا: ’میں امریکہ اور دیگر ممالک سے افغان اثاثوں کو بحال کرنے اور ان پر عائد پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کرتا ہوں۔ یہ پابندیاں انسانی امداد کے چیلنجز کو روک کر ایک بحران پیدا کر رہی ہیں۔‘