جماعت اسلامی سندھ حکومت کے نئے بلدیاتی نظام کے خلاف گذشتہ 21 دنوں سے احتجاج کر رہی ہے۔ اس سلسلے میں جمعرات کو کراچی میں حسن سکوائر پر خواتین مارچ اور دھرنے کا انعقاد کیا گیا تھا۔
اس موقع پر انڈپیںڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم نے کہا کہ ’ہم سندھ حکومت اور بلاول بھٹو سے کہتے ہیں کہ ہم کراچی کے تین کروڑ سے زائد عوام کے جائز اور قانونی حقوق اور شہر کے گھمبیر مسائل کے حل کے لیے، با اختیار شہری حکومت کے قیام، میئر اور بلدیاتی اداروں کے اختیارات اور وسائل کا مطالبہ کر رہے ہیں۔‘
’ہمارے تمام تر مطالبات آئینی اور قانونی ہیں، ان مطالبات کو کسی آمر کے نظام کا نام دے کر رد نہیں کیا جاسکتا۔‘
حافظ نعیم نے کہا کہ ’کراچی کو پرویز مشرف دور کے اختیارات نہیں دیتے نہ سہی، ذوالفقار علی بھٹو دور کے بلدیاتی اختیارات دے دو۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ذوالفقارعلی بھٹو کے دور میں سندھ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 1972 کا ہی مطالعہ کرلیں، 1972 کے اس بلدیاتی نظام میں کراچی میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے جو اختیارات اور محکمے اس کے پاس تھے وہی واپس دیے جائیں۔‘
سندھ حکومت کیا کہتی ہے؟
سندھ حکومت کے ترجمان اور ایڈمنسٹریٹر کراچی مرتضیٰ وہاب اس حوالے سے کہتے ہیں کہ ’جماعت اسلامی بلدیاتی قانون کے خلاف پروپیگنڈا کررہی ہے۔ یہ ساری سیاست کم بیک کرنے کے لیے ہی ہے۔
’میں حافظ نعیم الرحمان کا احترام کرتا ہوں، آج انہوں نے کہا کہ ہمارا کم بیک ہوگیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چند دن قبل بجلی اور پٹرول مہنگا ہوا، اس پر جماعت اسلامی دھرنا دیتے ہوئے نظر نہیں آتی ہے۔‘
سندھ میں بلدیاتی انتخابات بھی 16 ماہ سے تاخیر کا شکار ہیں۔ سندھ میں بلدیاتی حکومتوں کی معیاد 30 اگست 2020 کو ختم ہو گئی تھی۔
آئین پاکستان کے مطابق بلدیاتی حکومت کی معیاد پوری ہونے کے 120 دن کے اندر دوبارہ بلدیاتی انتخابات کرانا لازمی ہیں مگر تاحال یہ الیکشن نہیں ہوئے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بلدیاتی انتخابات میں تاخیر پر مرتضیٰ وہاب کا کہنا تھا کہ ’شروعات میں بلدیاتی الیکشن منعقد کرانے میں تاخیر کی بڑی وجہ 2017 کی مردم شماری تھی، جس کے اعداد و شمار گذشتہ سال جاری کیے گئے لیکن سندھ حکومت نے مردم شماری پر اعتراضات اٹھائے تھے۔‘
’ایسی صورت میں جب مردم شماری پر اعتراض ہو تو نئی حلقہ بندیاں کیسے ہوں؟ اس لیے بلدیاتی الیکشن میں تاخیر ہوئی۔‘
سندھ کا نیا بلدیاتی نظام کیا ہے؟
سندھ حکومت نے حال ہی میں صوبے کے بلدیاتی نظام کے 2013 کے قانون میں ترامیم کرکے اسے اسمبلی سے پاس کروایا ہے۔
ان ترامیم کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سے شہر کے بڑے ہسپتالوں بشمول سوبھراج ہسپتال، عباسی شہید ہسپتال، سرفراز رفیقی ہسپتال، لیپروسی سینٹر اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج کا انتظام واپس لے کر صوبائی حکومت کے زیر انتظام دینے کے ساتھ، پیدائش اور اموات کے سرٹیفیکیٹس جاری کرنے اور انفیکشیز ڈیزیز سمیت تعلیم اور صحت کے شعبوں پر لوکل گورنمنٹ کا اختیار ختم کر کے صوبائی حکومت کے زیر انتظام کر دیا گیا ہے۔
سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت اب صوبے کے بلدیاتی نظام میں یونین کمیٹیز کے وائس چیئرمینز ٹاؤن میونسپل کونسل کے رکن ہوں گے، جب کہ ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان میں سے میئر اور ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا۔
ان ٹاؤن میونسپل کونسل کے ارکان کی مدت چار سال ہوگی اور میئر کا انتخاب اوپن بیلٹ کے بجائے خفیہ ووٹنگ سے کیا جائے گا۔
ترمیمی بل کے مطابق 50 لاکھ یا اس سے زائد آبادی والے شہروں میں ہی میٹروپولیٹن کارپوریشن قائم کی جائیں گی۔
بلدیاتی حکومت ترمیمی بل 2021 کے مطابق صوبائی دارالحکومت کراچی سمیت صوبے کے بڑے شہروں حیدرآباد، سکھر، لاڑکانہ، میرپور خاص، بے نظیر آباد میں بھی کارپوریشنز لائی جا رہی ہیں اور ان شہروں میں تحصیل کی بجائے ٹاؤن سسٹم اور یونین کونسل کی جگہ یونین کمیٹیاں ہوں گی۔
ان ترامیم کے بعد سندھ کی حزب مخالف جماعتوں کی جانب سے ان کی مخالفت کی جا رہی ہے۔
پاک سر زمین پارٹی نے ان ترامیم کو سندھ ہائی کورٹ میں چیلنج کر دیا ہے جب کہ ایم کیو ایم نے بل کی شدید مخالفت کرتے ہوئے 11 دسمبر کو آل پارٹیز کانفرنس بھی بلائی تھی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے بھی بل کی مخالفت کی جا رہی ہے۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی بھی بلدیاتی ترمیمی بل کے خلاف 12 دسمبر سے ’کراچی بچاؤ‘ مارچ کے تحت احتجاج کر رہی ہے اور سندھ اسمبلی کے باہر دھرنا دے رکھا ہے۔
جس کے بعد سندھ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ اپوزیشن کے مطالبے پر بل کی کچھ ترامیم کو واپس لیا جائے گا۔