ایک نئی تحقیق کے مطابق پاکستانی طلبہ ریاضی اور سائنس کے مضامین میں بہت کمزور ہیں جس سے ملک کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔
تحقیق میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں 90 فیصد سے زیادہ پرائمری اور سیکنڈری کلاسوں کے طلبہ ریاضی اور سائنس کے مضامین میں کمزور ہیں یا ان کو صرف بنیادی سمجھ بوجھ ہے، ریاضی کا اوسط سکور 27 فیصد تھا جبکہ سائنس کا اوسط سکور 34 فیصد تھا، دونوں مضامین میں صرف ایک فیصد طلبہ نے 80 سے زیادہ نمبر حاصل کیے۔
پریشانی اس بات کی تھی کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں طلبہ دو اہم ترین مضامین میں اتنے کمزور ہوں۔
لیکن میری زیادہ توجہ خبر کے نچلے حصے نے اپنی جانب زیادہ مبذول کرائی۔
اگر 90 فیصد سے زیادہ پرائمری اور سیکنڈری کلاسوں کے طلبہ ریاضی اور سائنس کے مضامین میں کمزور ہیں تو 90 فیصد اساتذہ کی تدریسی مشقوں کو کمزور درجہ قرار دیا گیا تھا۔ آخر پھر طلبہ ہی کی کمزوری کو نشانہ کیوں بنایا جائے؟
رپورٹ میں اس امر کو واضح کیا گیا ہے کہ کمرہ جماعت میں زیادہ تر اساتذہ طلبہ سے سوالات پوچھنے یا بنیادی خیال سمجھنے کے لیے سرگرمیوں میں حصہ لینے کی ترغیب دینے کے بجائے نصابی کتاب سے الفاظ پڑھنے اور سمجھانے میں اپنا وقت صرف کرتے ہیں، جس کے نتیجے میں بنیادی خیال کی ناقص تفہیم اور امتحان میں نتیجہ ناقص کارکردگی نکلتا ہے۔
اساتذہ کی تربیت کسی بھی تعلیمی نظام میں بہت اہمیت کی حامل ہے اور اساتذہ ہی ہیں جو تعلیمی نظام کو بہتر بنانے اور مضبوط کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ لیکن ان ہی اساتذہ کے معیار کا تعین ان کی قابلیت، صلاحیت اور رویہ کرتا ہے جسے وہ اپنے ہمراہ ٹیچنگ کے پیشے میں لاتے ہیں۔
معاشرے کو بہتر بنانے میں اساتذہ کے کردار کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ان ہی کے علم اور صلاحیتوں کے باعث تعلیمی نظام کا معیار اچھا ہو سکتا ہے۔
اسی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’حیرت کی بات یہ ہے کہ طلبہ میں نئے اساتذہ کے مقابلے میں تجربہ کار اساتذہ سے سیکھنے کا رحجان کم تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس میں حیرت نہیں ہونی چاہیے۔ دنیا بھر میں تعلیمی نظام جدت کی جانب گامزن ہے۔ پڑھانے کے لیے نت نئے طریقے متعارف کرائے جا رہے ہیں، لیکن پاکستان میں اب بھی وہی رٹے کو ترجیح دی جا رہی ہے۔ سرکاری سکول تو ایک طرف پاکستان میں زیادہ تر پرائیویٹ سکول بھی اپنی ٹیچرز کی تربیت کے لیے خاطر خواہ محنت اور رقم خرچ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ اس تحقیق میں مجموعی طور پر 78 سرکاری سکولوں کے ساتھ ساتھ 75 نجی سکول بھی شامل تھے۔
پرائیوٹ سکولوں کا بھی حال دیکھ لیجیے۔ آپ نے خود کتنے ایسے پرائیویٹ سکول دیکھے ہیں جن میں لائیبریری ہو، کمپیوٹر لیب تو ہوگی لیکن بچوں کو استعمال کرنے کی اجازت صرف اس وقت ہو گی جب ان کی کمپیوٹر کلاس ہو۔ نجی سکول بھی پروجیکٹر لگا کر اور سلائڈز کے ذریعے لیکچر دے کر یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ وہ تعلیم اور ٹیچنگ کے نظام میں جدت لائے ہیں۔
اساتذہ کی تربیت ایک مسلسل امر ہے جس کا مقصد ان کی پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور مہارت کو بہتر سے بہتر کرنا ہوتا ہے۔ لیکن پاکستان میں بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو رہا۔ دور جدید کی ٹیچنگ سکلز سے وہ آشنا نہیں ہوتے اور اس کا اثر براہ راست طلبہ پر پڑتا ہے۔
اساتذہ کی تربیت اس لیے نہیں کی جاتی کہ حکومتی وسائل نہیں ہیں اور تربیت کے لیے بین الاقوامی امداد کی جانب دیکھا جاتا ہے۔ لیکن حکومت تعلیم کے لیے بجٹ میں مختص رقم کو اس وجہ سے کم کردیتی ہے کہ کووڈ 19 کے باعث ترقیاتی کاموں میں کمی آئی ہے لیکن وہی رقم اساتذہ کی تربیت کے لیے مختص نہیں کرتی۔
حکومت جس کی بھی ہو، لیکن اساتذہ کی تربیت اور ٹیچنگ کے معیار کو بہتر بنانا ان کی ترجیحات میں بہت نیچے ہوتا ہے۔ اگر آج پاکستان میں 90 فیصد سے زیادہ پرائمری اور سیکنڈری کلاسوں کے طلبہ ریاضی اور سائنس کے مضامین میں کمزور ہیں یا ان کو صرف بنیادی سمجھ بوجھ ہے تو اس کی واحد بڑی وجہ اساتذہ میں تربیت کا فقدان ہے۔
آخر کیا وجہ ہے کہ نئے اساتذہ چاہے انہوں نے پہلے پڑھایا ہو یا نہیں، چاہے انہوں نے ٹیچنگ کی تربیت حاصل کی ہو یا نہیں ان سے طلبہ زیادہ بہتر طور پر پڑھتے ہیں۔ ظاہری بات ہے کہ وہ گھسے پٹے روایتی طریقے سے ہٹ کر پڑھاتے ہیں اور طلبہ کو رٹے کی بجائے دماغ استعمال کرنے پر زور دیتے ہیں۔
یہ تحقیق پہلی اور آخری بار نہیں ہوئی اور اس تحقیق کے نتیجے میں جو بات سامنے آئی ہے وہ بھی پہلی یا آخری بار نہیں آئی۔ اگر طلبہ اور ملک کا مستقبل سنوارنا ہے تو اساتذہ کے معیار اور تربیت کو ترجیح بنائیں۔ اور 90 فیصد طلبہ ریاضی اور سائنس میں کمزور کی بجائے 90 فیصد اساتذہ کی تدریسی مشقیں کمزور ہونے پر غور کریں۔