فروری 2019 میں فیض آباد دھرنا کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور جسٹس مشیر عالم پر مشتمل دو رکنی بنچ نے فیصلہ دیا تھا۔ فیصلہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے لکھا تھا جس پر نظرثانی کی سات درخواستیں دائر کی جا چکی ہیں۔
تقریباً دو ڈھائی مہینے پہلے ہی ہمیں یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے کچھ لوگ ناراض ہو گئے ہیں۔ ان کی کردار کشی بھی شروع ہو گئی۔ میں نے 15 اپریل 2019 کو تقریباً 2 مہینے پہلے ہی ایک کالم لکھا تھا اس میں خدشہ ظاہر کیا تھا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے کی وجہ سے کچھ لوگ ان کے خلاف ہو گئے ہیں۔ پچھلے چند دن سے جو ہو رہا ہے اس سے اب کسی کو کوئی شک نہیں رہ گیا کہ قاضی فائز عیسیٰ کو کیوں ٹارگٹ کیا گیا ہے ؟
اس تفصیل میں جانے کی تو ضرورت نہیں کہ ریفرنس بنتا ہے یا نہیں لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ جو بیانیہ بنانے کی کوشش کی گئی سب کا احتساب ہو رہا ہے تو ججوں کا بھی تو احتساب ہو سکتا ہے۔ ججوں کا احتساب ہونا چاہیے لیکن ان کے احتساب کا ایک طریقہ کار ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل میں جب کوئی ریفرنس بھیجا جاتا ہے تو پہلے اسے میڈیا میں لیک نہیں کیا جاتا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس یا شکایت میڈیا میں لیک ہونے سے مشکوک ہو گئی ہے۔
ریفرنس جان بوجھ کر میڈیا میں لیک کیا گیا۔ دو ڈھائی ماہ پہلے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف گفتگو شروع ہوئی۔ جن لوگوں نے ہمارے ساتھ بات کی میں نے ان سے کہا کہ یہ آپ غلط کام کریں گے کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جب میموگیٹ کی رپورٹ لکھی تو ان سے پیپلز پارٹی ناراض ہوگئی تھی۔ سپریم کورٹ کے ایک رکنی انکوائری کمیشن کے طور پر جب انہوں نے کوئٹہ بم دھماکے کے حوالے رپورٹ لکھی تو مسلم لیگ نون کی حکومت ان سے ناراض ہوگئی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف پریس کانفرنس بھی کی تھی۔ اب فیض آباد دھرنا کیس کے فیصلے پرتحریک انصاف کی حکومت بھی ان سے ناراض ہو رہی ہے۔ یہ غلط ہے اس سے نقصان ہوگا۔ ایک محاذ کھل جائے گا۔
مجھے کہا گیا کہ فائز عیسیٰ بڑے ایروگنٹ (مغرور) جج ہیں ان کے ساتھ ایک وکیل بھی کھڑا نہیں ہوگا۔ میں نے جواب دیا کہ یہ ٹھیک ہے۔ ہوسکتا ہے ان سے مجھے اور آپ کو بھی شکائت ہو لیکن جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی طاقت ان کے فیصلے ہیں۔ فیض آباد دھرنا کیس میں ان کا فیصلہ ان کی طاقت بن جائے گا جس سے بڑا مسئلہ ہوگا۔
آج ( جمعے کو ) سپریم کورٹ میں ملک کے وکلا کے دو بڑے گروپ یعنی حامد خان اور عاصمہ جہانگیر گروپ دکھائی دے رہے ہیں لیکن اس معاملے میں ٹی وی سکرین پر نظر آنے والے چہروں کا تعلق نہ تو سپریم کورٹ بارایسوسی ایشن سے ہے اورنہ ہی پاکستان بار کونسل سے۔ وہ غیرمعروف لوگ ہیں جنہیں زبردستی ٹی وی سکرین پر لایا گیا ہے۔ لوگ صبح سے ان کا موقف سن رہے ہیں۔
مجھے بہت سے وکلا نے کہا ہے کہ ایسا لگ رہا کہ 2007 کی وکلا تحریک دوبارہ شروع ہو گئی ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ شاید ہم 12 سال پیچھے چلے گئے ہیں۔ ایک ریفرنس نے جس کا ابھی فیصلہ نہیں ہوا مجھے لگتا ہے کہ یہ ریفرنس ملک کو 12 برس پیچھے لے گیا ہے۔ 12 سال پہلے ملک میں پرویز مشرف کی حکومت تھی اب عمران خان کی حکومت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حالات کا ستم مجھے یہ کہنے پر مجبور کررہا ہے کہ پرویز مشرف اور عمران خان کی حکومت میں فرق ختم ہو گیا ہے۔ پرویز مشرف نے سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار محمد چودھری کے خلاف ریفرنس دائر کیا اب قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس دائر کیا گیا ہے۔ افتخار چودھری کا تعلق بھی بلوچستان سے تھا جسٹس فائز عیسیٰ کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ میرے جیسا آدمی جو چاہتا کہ ملک میں جمہوریت چلے اور میڈیا پر پابندیاں نہ لگیں تو میرے لیے تو یہ بڑی تشویش کی بات ہے۔
میرے خیال میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے معاملے پر وکلا تقسیم نہیں ہیں۔ وکلا تنظیمیں یعنی پاکستان بار کونسل، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن، سندھ ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا بار کونسل جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ کھڑی ہیں۔ ایک بار کونسل ہے جو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مخالفین کے ساتھ کھڑی ہے اور وہ پنجاب بار کونسل ہے۔ جنہوں نے ریفرنس فائل کیا ہے اور جو وکلا کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں انہیں کچھ عرصے کے بعد غلطی کا احساس ہوگا۔
2007 کی وکلا تحریک پنجاب، اسلام آباد اور راولپنڈی میں زیادہ مضبوط تھی۔ اس وقت، سپریم جوڈیشل کونسل کے اجلاس کے موقعے پر بھی پنجاب کے نامی گرامی وکلا سپریم کورٹ میں موجود ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے بہت سے سابق صدور بھی عدالت میں ہیں۔
میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کے معاملے میں وزیراعظم عمران خان کو ابھی احساس نہیں ہوا کہ انہوں نے اپنے ساتھ کتنی زیادتی کی ہے اور اپنے پاوں پر کلہاڑی مار لی ہے یا کسی نے انہیں مروا دیا ہے۔ یہ تھوڑے دن بعد انہیں پتا چلے گا۔
ایک بات جو شاید بہت سے لوگوں کو ناگوار گزرے لیکن ہے یہ سچ۔ 2006 میں بلوچستان میں نواب اکبر بگٹی کو قتل کیا گیا جس کے نتائج آج تک بھگتنے پڑ رہے ہیں۔ ایک بار پھر صرف ایک فیصلے کی وجہ سے آپ نے بلوچستان کے ایک جج کو ہدف بنایا ہے۔ اس معاملے پر 3 صوبے ایک طرف ہیں اور پنجاب دوسری طرف۔ پتا نہیں آپ کو اپنی غلطیوں کا احساس کیوں نہیں ہوتا ؟
جس حد تک میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو سمجھا ہوں مجھے یہ قابل سماعت نہیں لگتا لیکن میں یہ اندازہ لگا سکتا ہوں کہ اس وقت پاکستان کے میڈیا پر جتنا دباو ہے۔ اس سے زیادہ دباو عدلیہ پر ہو گا۔ میں کوئی پیش گوئی نہیں کرنا چاہتا لیکن اتنا ضرور کہوں گا یہ ریفرنس دائر کرکے جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جیت گئے ہیں تو حقیقت یہ ہے کہ وہ جیت کر بھی ہار گئے ہیں۔ اگر کوئی ہارتا ہے تو وہ ہار کربھی جیت جائے گا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کا فیصلہ جو بھی ہو اس سے جمہوریت پسند قوتوں میں نیا عزم پیدا ہوا ہے۔ یہ جمہوریت اور آئین کی بالا دستی کی تحریک ہے۔ ریفرنس کا فیصلہ مخالفت میں بھی آئے تو یہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف نہیں بلکہ ان قوتوں کے خلاف ہوگا جنہوں ریفرنس دائر کروایا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ایف بی آر نے شکائت کی ہے کہ انہوں نے اپنے اہل خانہ کے اثاثوں کی تفصیل 2014 کے گوشواروں میں ظاہر نہیں کی۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا موقف ہے کہ ان کے بچے خود مختار ہیں اور ان کی زیر کفالت نہیں ہیں اس لیے ان کے اثاثے ڈیکلئر کرنا ضروری نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایف بی آر کو یہ بات تب سے پتہ تھی لیکن 5 برس تک خاموشی اختیار کی گئی۔ میرے خیال میں یہ ریفرنس بدنیتی پر مبنی ہے اور اس سے پاکستان کو کمزور کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ ریفرنس کی سماعت لمبی چلنے کی صورت میں وکلا تحریک کا امکان موجود ہے۔