الفاظ کے تانوں بانوں، کہاوتوں اور خود اطمینانی کے ساتھ نئے سرے سے گذشتہ ماہ تخلیق کی گئی قومی سلامتی پالیسی (این ایس پی) پیش کی گئی جو 2014 میں بنائی کی گئی داخلی سلامتی پالیسی کا ایک زیادہ جامع ورژن ہے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر کو مودی کے ہاتھوں میں دیتی ہوئی، شہریوں کی رضامندی کی قانونی حیثیت سے محروم، مبہم اور ناقابل عمل، یہ این ایس پی جیو اکنامکس کی ایک کاغذی کشتی ہے جو ہائبرڈ حکومت کی بدانتظامی کے سونامی کے ساتھ نبر آزما ہے۔
نہ ہونے کے برابر این ایس پی کسی قسم کی مدد نہیں کرسکتی۔ شاید مستقبل کے قانون ساز’تنوع میں اتحاد‘ کو بڑھانے اور ہمارے ’نسلی، مذہبی، ثقافتی اور زبان کے تنوع کے لیے نئے راستے تلاش کریں۔‘
تاہم فی الوقت بلوچستان اور خیبر پختونخوا سے لاپتہ افراد، پی ٹی ایم اور فاٹا کے شہریوں کے مکمل آئینی حقوق جیسے مسائل کو قانونی اور جمہوری طور پر حل کرنے کی ضرورت ہے، جس کے امکانات بہت کم ہیں۔
اس این ایس پی نے سکیورٹی کے تصور کو اتنا وسیع کر دیا ہے کہ یہ بے معنی ہو گیا ہے۔
’چھوٹے شہروں کی مساوی ترقی، ہنر میں اضافہ، شعبہ توانائی، نظام انصاف، [اور] آبادی کے استحکام‘ کے بعد 'سکیورٹی' کا لاحقہ لگانے سے یہ سکیورٹی میں آ نہیں جاتے۔
یہ وسیع تر تصور جنگی اتحادیوں کے لیے مفید ہے لیکن قومی پالیسی کے طور پر یہ پالیسی سازوں کی’بامعنی تفریق کرنے کے لیے واضح سوچ میں ناکامی کو ظاہر کرتا ہے۔ اگر سب کچھ سیکورٹی ہے، تو کچھ بھی نہیں سکیورٹی ہے۔
عمران خان کے ریاست کے متعلق خیراتی تنظیم کے تصور نے این ایس پی کے انسانی تحفظ کے پہلو کو ڈبو دیا ہے۔ شہریوں کے وقار کے لیے لنگر خانے نہیں کارخانے چاہییں، امداد نہیں تنخواہ کی ضرورت ہے، پناہ گاہ کی بجائے ہنرگاہ، ملازمت ناکہ خیرات کی ضرورت ہے۔
جیو اکنامکس: این ایس پی میں انسانی اور معاشی تحفظ کے حصول کے لیے واحد اشارہ ہے جس کو اس حکومت نے غلط سمجھا اور غلط استعمال کیا۔
اس این ایس پی نے جیو اکنامکس کے پہیے کو دوبارہ ایجاد کیا جو کم ازکم آٹھ سال پہلے ایجاد کیا جا چکا تھا۔
2015 میں دستخط ہونے والا چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور( سی پیک) کسی بھی پاکستانی حکومت کی جانب سے جیو اکنامکس پر سب سے بڑا اقدام ہے۔
ترکمانستان افغانستان پاکستان بھارت گیس پائپ لائن جیو اکنامکس ہے۔ 2014 میں روس کے ساتھ پاکستان کا پہلا دفاعی تعاون معاہدہ جیو اکنامکس ہے۔ 2017 میں شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی مکمل رکنیت جیو اکنامکس ہے۔
اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) کے 2017 کے سربراہ اجلاس کے لیے اسلام آباد کا ایران، ترکی اور وسطی ایشیائی جمہوریتوں کے صدور کی میزبانی کرنا جیو اکنامکس پر عمل ہے۔
ایک 'پالیسی' ریاستی وسائل کو ریاستی مقاصد کے لیے ساتھ مختص اور ہم آہنگ کرنے، مقاصد میں ترجیحات اور موجودہ عمل کی عکاسی کرنے کے لیے ایک رہنما اصول ہے۔
یہاں این ایس پی اپنے کاغذ پر سیاہی خشک ہونے سے پہلے ہی تباہ ہوگئی تھی۔
کیا ’چھوٹے شہروں کی مساوی ترقی، مہارت میں اضافہ، مارکیٹ پر مبنی توانائی کے شعبے، نظام انصاف، آبادی کے استحکام‘ کے لیے فنڈز میں خاطر خواہ اضافہ کیا جائے گا اور سکیورٹی کے بجٹ میں کٹوتی ہوگی؟امکان نہیں ہے۔
اگر وسائل کی تقسیم میں اس کی عکاسی نہ کی گئی تو اچھے ارادے اور پرکشش الفاظ کاغذ پر ہی رہ جائیں گے۔ اس این ایس پی کی قانونی حیثیت کم ہے۔
س کے’ پالیسی سازی‘ کے پیرے میں پارلیمنٹ کا ذکر نہیں۔ کسی بھی قائمہ کمیٹی نے اس کے مسودے کی جانچ نہیں کی۔ کشمیر کمیٹی این ایس پی کے شائع ہونے تک اندھیرے میں رہی۔ عمران خان نے اس روز وزیر اعظم سیکرٹریٹ میں اس پالیسی کا اعلان کیا جب پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کا اجلاس جاری تھا۔ اس کو دونوں میں سے کسی بھی ایوان میں لایا گیا تھا اور نہ اعلان کے بعد سے لایا گیا۔
ستم ظریفی یہ ہے کہ شہریوں کے لیے بنائی گئی اس خود ساختہ پالیسی کو ان شہریوں کی حمایت حاصل نہیں جن کی حفاظت کے لیے یہ بنائی گئی تھی۔
یہ این ایس پی پاکستانی عوام کے لیے نہیں، جو اس عالمی نقطہ نظر کو بیان کرتی ہے جو ہماری سکیورٹی سٹیٹ مغرب، بنیادی طور پر امریکہ کے سامنے واضح کرنے کی خواہش مند ہے۔
کیوں؟ کیونکہ امریکہ اور ان کے اتحادی انٹرنیشنل سکیورٹی اسسٹنس فورس اور نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن(نیٹو) افغانستان کے معاملے پر ایک دہائی سے زیادہ عرصہ گزرنے پر پاکستان سے ناراض ہیں۔
اور وہ چپ نہیں رہے۔ جیو اکنامکس پر عمل کرتے ہوئے انہوں نے فنانشل ایکشن ٹاسک فورس اور انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) کے ذریعے پاکستان کے خلاف جوابی کارروائی کی ہے۔
یہ این ایس پی افغانستان سے امریکی انخلا کے بعد بحران کا شکار حکومت کے اچھے طرز عمل کا حلف نامہ ہے۔
این ایس پی یہ عہد کرتی ہے کہ پاکستان 2022 کے بعد سکیورٹی گیمز نہیں کھیلے گا بلکہ پاکستان اپنے ہمسایوں کے ساتھ امن اور روابط کا خواہاں رہےگا – تین دہائیاں قبل دیوار برلن کے گرنے کے بعد باقی دنیا کی طرف سے اپنائی گئی پالیسیوں پر عمل شروع کر دے گا۔ اور غیر تحریری درخواست: ہم اچھا کھیلں گے، براہ کرم ہمیں دوبارہ امداد بھیجنا شروع کریں۔
س این ایس پی کے 11 ہزار الفاظ میں بھارت کے زیر انتظام کشمیر سے متعلق الفاظ بمشکل ایک فیصد ہیں۔ اور اس میں کشمیر کے الحاق کی تبدیلی کو پاکستان کے قومی سلامتی کے بنیادی مقاصد میں سے ایک کے طور پر لکھنے کی جرات نہیں کی گئی۔
یہ این ایس پی مسئلہ کشمیر کے ’پرامن اور منصفانہ حل‘ کے لیے نئی سوچ کے ایک لفظ سے بھی عاری ہے۔ حکومت کی جانب سے قومی اسمبلی میں سٹیٹ بینک ترمیمی بل کو مسترد کرنے کے 12 گھنٹے سے بھی کم وقت میں اس این ایس پی’پاکستان کی ہر صورت میں خودمختاری کے تحفظ‘ کے وعدے کے ساتھ جاری کیا گیا۔
عمران خان کی حکومت نے آئی ایم ایف کے دباؤ میں آکر ریاست کا مانیٹری پالیسی کا بازو خود ہی الگ کر دیا ہے اور قوم کی اقتصادی اور دفاعی سلامتی پر سمجھوتہ کیا ہے۔
ریاست نے تاحال اکتوبر 2021 کے خفیہ معاہدے اور ٹی ایل پی کے ساتھ دیگر چھ سابقہ معاہدوں پر دستخط کر کے ’اپنی سرزمین پر دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث کسی بھی گروہ کے لیے صفر رواداری کی پالیسی‘ والی بہادری کی نفی کی ہے۔
ستمبر 2021 میں صدر مملکت کی ٹی ٹی پی کو معافی کی پیشکش این ایس پی کی کھلم کھلا خلاف ورزی ہے۔ ٹی ٹی پی نے کچھ دن بعد اس پیشکش کو مسترد کردیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
غلطیاں دہرانے والی ایک حکومت نے نومبر 2021 میں ٹی ٹی پی کے ساتھ جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کیے تھے جس میں ٹی ٹی پی نے ایک ماہ بعد توسیع کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
یہ این ایس پی تلخ حقائق سے نمٹنے میں بہت کم رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ 2021 میں دہشت گرد حملوں میں 42 فیصد اور ہلاکتوں میں 52 فیصد اضافہ ہوا۔
دہشت گردوں نے 2021 میں 335 پاکستانیوں کو ہلاک کیا جن میں 177 سیکورٹی اہلکار اور 126 شہری شامل ہیں جبکہ 207 واقعات کے نتیجے میں زخمیوں کی تعداد 555 تھی۔
بلوچستان کے علاقوں کیچ، نوشکی اور پنجگور میں صرف ایک ہفتے کے دوران ہونے والے دہشت گردانہ حملے اس سکیورٹی چیلنج کی واضح یاد دہانی کراتے ہیں جو افغانستان پر طالبان کے قبضے کے بعد کم ہونے کی بجائے مزید گہرا ہوتا جا رہا ہے۔
عمران خان کی حکومت کی جانب سے سلامتی اور خارجہ پالیسیوں کا اصل طرز عمل این ایس پی کو متنازع بناتا ہے۔ اگر مقصد امریکہ کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں تو عمران خان کا ’ابسلوٹلی ناٹ‘ اور ’غلامی کی بیڑیاں‘ بے معنی ہیں۔
اگر مقصد چین کے ساتھ بہتر تعلقات ہیں تو سی پیک کو انتہائی سطح تک سست کرنے کا کا کوئی مطلب نہیں۔ اگر سعودی عرب کے ساتھ بہتر تعلقات مقصود ہیں تو اگست 2020 میں وزیر خارجہ کی جانب سے کی جانے والی تنقہد کا کوئی مطلب نہیں۔
مودی، بھارت اور کشمیر کے بارے میں عمران خان کے بیانات الجھن، جہالت اور خوشنودی کی افسوس ناک کہانی جاری رکھے ہوئے ہیں۔
پولرائزنگ دنیا کے نقصانات خالی اعلانات جیسے کہ ’پاکستان ’کیمپ کی سیاست' نہیں کرتا‘ سے ختم نہیں ہوں گے۔
ایک طرف امریکہ چین کے خلاف بحر ہند بحرالکاہل میں بھارت کے ساتھ اتحادی ہے اور ایف اے ٹی ایف، آئی ایم ایف اور نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان کو نقصان پہنچا رہا ہے۔
دوسری طرف چین مفلوج اور تذبذب کا شکار حکومت سے حیران ہے۔ اس ہفتے عمران خان کا دورہ چین اس پر خطر تزویراتی رسی کی عکاسی کرتا ہے جس پر پاکستان کو لازمی چلنا ہے۔ آنے والے مشکل فیصلوں میں این ایس پی کی کوئی مدد نہیں ہے۔
ایک ماہر لکھتے ہیں کہ ’فکری طور پر کتنے ہی پرکشش کیوں نہ ہوں، تزویراتی اہداف کا اس وقت تک کوئی خاص مطلب نہیں ہوتا جب تک کہ ان کی کامیابی کے لیے درکار فوجی، معاشی اور سفارتی ذرائع کو ایک ساتھ نہ ملا دیا جائے۔‘
ایک نااہل حکومت کی طرف سے اعلان کردہ این ایس پی عظیم عزائم اور غیر حقیقت پسندانہ خیالات سے بھرے ہوئے الفاظ کا کھیل ہے۔
یہ مستقل طاقت ور کے برآمدے میں رکھے ہوئے ایک ڈبے میں ایسا پودے کی حیثیت سے رہے گی جس کی نشونما رک چکی ہو۔ عوام کی مٹی میں جڑیں نہ ہونے کے سبب این ایس پی پنپ نہیں سکے گی۔
دو جملوں پر مشتمل این ایس پی سے کسی کو زیادہ خوشی ملے گی۔ ایک یہ کہ ریاست کا کوئی بھی عضو کسی بھی پرتشدد غیر ریاستی تنظیم کی حمایت اور مدد نہیں کرے گا۔
اور دوسرا یہ کہ ریاست آئین کے دیباچے اور بنیادی حقوق کے باب میں عوام سے کیے گئے وعدوں کی پاسداری کرے گی اور انہیں پورا کرے گی۔ اس میں کافی سے زیادہ سکیورٹی ہے۔
نوٹ: خرم دستگیر سابق وفاقی وزیر دفاع ہیں اور ان کا تعلق حزب اختلاف کی جماعت مسلم لیگ ن سے ہے۔ یہ مضمون لکھاری کی ذاتی رائے پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔