کچھوا سست رفتار تو تھا ہی لیکن سمت کا تعین بھی نہیں کر پا رہا تھا، اسی لیے بے ہنگم ڈیل ڈول کے ساتھ مسلسل ڈانواں ڈول چال چلے جا رہا تھا۔
خرگوش حسبِ فطرت اور روایت اونچی اونچی چھلانگیں لگاتا، دل میں بجا فخر سموئے کہ سُبک رفتاری میں کیا مجال کہ کچھوا اسے شکست دے سکے، منزل کی جانب گامزن تھا، لیکن جیسا کہ کہانی میں ہوا، کہیں نہ کہیں تو خرگوش کی آنکھ لگنی ہی تھی اور اپنی ڈھیلی ڈھالی چال چلتے چلتے کچھوے کو خرگوش پر سبقت لے ہی جانی تھی۔
حکومت اور اپوزیشن کی کہانی بھی گذشتہ تین چار سال سے اسی داستان پر محیط رہی، لیکن اب محسوس یہی ہو رہا ہے کہ کچھوے کی چال چلتی اپوزیشن آہستہ آہستہ اپنی ڈگر پر آ گئی ہے، لیکن کیا خوابِ خرگوش میں محو ہی سہی مگر سُبک رفتار حریف کو شکست دے پائے گی؟
یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب فی الحال تو کسی کے پاس نہیں۔ حتی کہ اس شجرِ پھل دار و پھول دار کہ جس کے سائے تلے اس روایتی دوڑ کا اختتام ہونا ہے، وہ بھی اشارہ دینے سے تاحال قاصر ہے کہ کون سا فریق کامران ہونا ہے۔
پاکستان کی سیاسی و پارلیمانی تاریخ کی حقیقت ہے کہ کسی بھی وزیراعظم کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد آج تک کامیاب نہیں ہوسکی۔ 1989 میں وزیراعظم بےنظیر بھٹو کے خلاف عدم اعتماد چند ووٹوں سے ناکام ہو گئی تھی، باوجود اس کے کہ تحریک کو طاقتور حلقوں کی بھرپور سپورٹ بھی حاصل رہی۔
اسی طرح 2006 میں وزیراعظم شوکت عزیز کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کو بھی ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اب کی بار مرکز میں تحریک عدم اعتماد لانے کے دونوں صورتوں میں تاریخی نتائج سامنےآ سکتے ہیں۔ اگر یہ تحریک کامیاب ہو جاتی ہے تو وزیراعظم عمران خان پاکستان کی سیاسی اور پارلیمانی تاریخ کے پہلے سربراہِ حکومت ہوں گے جو آئین میں دیے گئے اس طریقۂ کار کے تحت عہدے سے ہٹائے جائیں گے۔ بصورتِ دیگر اگر یہ تحریکِ عدم اعتماد ناکام ہوتی ہے تو عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیراعظم بن جائیں گے جو اپنی منتخب آئینی مدت پوری کریں گے۔
عدم اعتماد کی تحریک لانے کا فیصلہ کرکے اپوزیشن بہت بڑا سیاسی جوا کھیلنے جارہی ہے۔ یہ وہ اصل قدم ہوگا جس کے بعد آر یا پار کا حتمی فیصلہ ہو گا۔
کامیابی کی صورت میں تو ظاہر ہے اپوزیشن کے لیے بہت بڑے سیاسی جشن کا سماں ہوگا لیکن ناکامی کی صورت میں پی ڈی ایم میں شامل جہاندیدہ، سینیئر ترین سیاست دانوں اور پیپلز پارٹی جیسی کائیاں جماعت نے خود اپوزیشن کو پہنچنے والے نقصان کا بھی بخوبی حساب کتاب کر رکھا ہوگا۔
اپوزیشن کی تحریکِ عدم اعتماد اگر ناکام ہو جاتی ہے تو یہ وزیراعظم عمران خان کی اپنے دورِ وزارتِ عظمیٰ کی سب سے بڑی کامیابی ہوگی، جس سے خان صاحب کو نہ صرف دگنا چوگنا حکومتی اور سیاسی اعتماد حاصل ہوگا بلکہ (بلدیاتی الیکشن سے قبل تحریک لانے کی صورت میں) الیکشنز میں کامیابی کے لیے تحریکِ انصاف کے مورال میں بھی کئی گنا اضافہ ہو جائے گا۔ کامیابی یا ناکامی دونوں صورتوں میں حکومت اور اپوزیشن دونوں کی ساکھ تحریکِ عدم اعتماد کے داؤ پر لگی ہے۔
حالات و واقعات کا باریک بینی سے جائزہ لیا جائے تو بہت سے معاملات اس مرتبہ مختلف نظر آتے ہیں۔ یہ بھی حقیقت ہےکہ عدم اعتماد کا آپشن پیپلزپارٹی کا ہی دیا گیا تھا لیکن گذشتہ برس ن لیگ اور مولانا فضل الرحمٰن کے تحفظات ہونے کی بنا پر یہ عملی جامے کے قریب تر بھی نہ پہنچ سکا، جس کی ایک بہت بڑی وجہ مقتدر حلقوں سے متعلق مذکورہ سیاسی جماعتوں اور ان کے قائدین کے تاثرات تھے۔
لیکن گذشتہ سال اور آج کے درمیان پُلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ گیا۔ خاص طور پر مولانا صاحب کی جماعت کو خیبرپختونخوا میں ملنے والی انتخابی کامیابی اور نتیجتاً مولانا کا فرطِ مسرت میں نیوٹرل کہہ کر اظہارِ تشکر اور کل کی پی ڈی ایم پریس کانفرنس میں دو مختصر مگر اہم جملے: اول - ایمپائر ہوتا ہی وہی ہے جو نیوٹرل ہو اور دوئم - پہلے گیم کسی اور ہاتھ میں تھی مگر اب ہاتھ سے نکل چکی ہے۔
ان تمام بیانات اور حالات و واقعات کو جوڑا جائے تو اپوزیشن کا اعتماد ناجائز نظر نہیں آتا۔ دوسری جانب سیاست کا ماہر تجربہ کار ترین کھلاڑی آصف علی زرداری عرصے کی خاموشی کے بعد ایک دم سے منظرعام پر آ جائے تو سمجھ لیجیے ’ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا‘ کی صورت حال پیدا ہو چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب یہ بھی حقیقت ہے کہ اپوزیشن کے پاس تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کے نمبرز تو یقیناً موجود ہیں لیکن تاحال کامیاب کروانے کے نمبرز کی سرگردانی جاری ہے۔ خبر ہے کہ اتوار کے روز چوہدری برادران کی ایک اور ملاقات شہباز شریف سے متوقع ہے جس میں باقاعدہ پی ڈی ایم کی طرف سے تحریکِ عدم اعتماد کے لیے ووٹ مانگا جائے گا۔
ماضی میں ایک بار ن لیگ کے وزیراعلیٰ پنجاب وائیں کے خلاف کامیاب تحریکِ عدم اعتماد لائے جانے کے جواب میں پیپلز پارٹی کے پنجاب کے وزیراعلیٰ منظور احمد وٹو کے خلاف عدم اعتماد تحریک لانے میں چوہدری برادران کا کردار ناکام رہا تھا لیکن وہ بہت پرانے ماضی کی داستان ہے۔
کیا اس بار چوہدری برادران پنجاب یا مرکز میں عدم اعتماد کا حصہ بن کر اسے کامیاب کروا پائیں گے؟ بنیادی سوال تو یہ بنتا ہے کہ آخر چوہدری برادران وزیراعظم عمران کے خلاف اپوزیشن کا ساتھ کیوں دیں گے؟ اس کا سیدھا اور انتہائی گہرا جواب تو فی الحال اسی امر میں مضمر ہے کہ حالیہ تحریکِ عدم اعتماد کی سنجیدہ کوششوں کے دوران چوہدری برادران کی اپوزیشن/پی ڈی ایم/ن لیگ/پی پی سے مسلسل ملاقاتوں کے پیچھے ایک واضح اشارہ موجود ہے۔
اول، یہ اشارہ اگر نہ ہوتا تو گجرات کے چوہدری صاحبان کبھی بھی اپوزیشن سے بار بار ایسی ملاقاتیں ہونے کی نوبت ہی نہ آنے دیتے۔ دوئم، ق لیگ گورننس اور مہنگائی،بےروزگاری کے معاملات پر بارہا حکومت سے اپنی ناراضی کو ریکارڈ پر لا چکی ہے۔ سوئم، عین ممکن ہے کہ تبدیلی کی صورت میں پنجاب میں وزارتِ اعلیٰ ق لیگ کے حصے میں آ جائے جو امکانات سے بعید بھی نہیں۔ ق لیگ اگر اپوزیشن کا ساتھ دینے پر راضی ہو جاتی ہے تو ایم کیو ایم اور دیگر حکومتی حلیف جماعتوں کا اپوزیشن کے ساتھ جا ملنا کوئی بہت بڑی یا مشکل بات نہیں رہ جائےگی۔
اس صورتحال میں بلوچستان سے حکمران جماعت ’باپ‘ کے ایک اہم رکن کا حالیہ بیان بھی مدنظر رہے جو کہہ گئے کہ اب ہمیں اشارے ملنا بند ہو گئے ہیں۔ آنے والے دنوں میں اس سیاسی دوڑ میں کون جیتتا، کون ہارتا ہے واللّہ اعلم بالصواب، لیکن خرگوش اور کچھوے کی کہانی کا انجام انتہائی قریب اور دلچسپ ہے۔