پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں ایک بار پھر اپوزیشن جماعتیں آپس میں ملاقاتوں میں مصروف اور مشترکہ حکمت عملی بنانے کے لیے متحرک دکھائی دے رہی ہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اپوزیشن کی جانب سے حکومت پر ایسا دباؤ دکھائی نہیں دیتا جو ایوانوں میں تبدیلی کا سبب بن سکے، لہذا حزب اختلاف کو پارلیمان کے باہر بھی متحد ہونے کی ضرورت ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما چوہدری منظور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پیپلز پارٹی نے ہمیشہ اپوزیشن میں اپنا اہم کردار ادا کیا۔ سندھ میں حکومت ہونے کے باوجود دوسری جماعت کے ساتھ مل کر حکومت مخالف جدوجہد کو تیار رہی لیکن مسلم لیگ ن اپنے سیاسی ایجنڈے پر عمل پیرا رہتی ہے اور صرف اپنا سیاسی فائدہ مدنظر رکھتی ہے۔‘
ان کے بقول: ’پی ڈی ایم نے ن لیگ کو پنجاب میں مشترکہ عدم اعتماد کی تحریک لانے کی پیشکش کی لیکن انہوں نے قبول نہیں کی بلکہ پیپلز پارٹی کو ہی نوٹس جاری کروا دیے، لہذا جب تک وہ اپنا کردار واضح نہیں کریں گے تو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہونا مشکل ہے۔‘
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما میاں مرغوب احمد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پیپلز پارٹی پی ڈی ایم کا سہارا لے کر اسٹیبلشمنٹ کی حمایت حاصل کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے سیاسی مفادات کے تحت اپوزیشن اتحاد کو استعمال کرنا چاہتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب میں نمبر گیم پوری نہ ہونے کے باوجود عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کی شرط اس لیے رکھی کہ ن لیگ کو سیاسی طور پر پنجاب میں کمزور کیا جائے۔‘
میاں مرغوب کے بقول: ’مسلم لیگ ن عوامی مفادات کی سیاست کرنا چاہتی ہے اور ہمارا ایجنڈہ واضح ہے کہ شفاف انتخابات کے ذریعے کامیاب جماعت اقتدار میں آئے اور عوامی مسائل حل کرے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پیپلز پارٹی ایوانوں میں تو متحد ہوتی ہے لیکن باہر عوامی سطح پر مہم چلانے کو تیار نہیں ہے کیونکہ ان کے اپنے سیاسی مفادات ہیں۔ اندر بیٹھ کر مفادات حاصل کرنے کے لیے کبھی اسٹیبلشمنٹ کے قریب ہوجاتے ہیں اور کبھی دور جب کہ ن لیگ اپنے ایک بیانیے پر مستقل قائم ہے۔ پیپلز پارٹی پہلے اعتماد پر پورا اترے پھر آگے بڑھا جا سکتا ہے۔‘
اس صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے سیاسی تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’اپوزیشن جماعتیں جس طرح ایوان میں متحد ہیں باہر بھی ایسے ہی مشترکہ جدوجہد کی کوشش کریں تو کامیاب ہوسکتی ہیں۔‘
کیا حزب اختلاف حکومت کو ٹف ٹائم دے پائے گی؟
اس سوال کے جواب میں سہیل وڑائچ نے کہا کہ ’موجودہ صورتحال میں لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کو سمجھ آگئی ہے کہ کوئی بھی اکیلے کامیاب نہیں ہوسکتا، اس لیے امکان ہے کہ اتحاد نہ بھی ہو لیکن سمجھوتہ ضرور ہوگا کہ کسی بھی معاملے پر مشرکہ حکمت عملی بن سکتی ہے۔‘
ان کے بقول اگرچہ حکومت اور اسٹیبلشمنٹ میں ایک پیج والا معاملہ ختم ہونے کے بعد حالات خراب ہیں مگر ابھی حکومت کے لیے کوئی خطرناک صورت حال دکھائی نہیں دے رہی اور حکومت فوری ختم ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
دوسری جانب چوہدری منظور کے مطابق اس وقت جو معیشت اور بد انتظامی کی صورتحال ہے اس میں حزب اختلاف کو مشترکہ لائحہ عمل بنانے کی ضرورت ہے۔ ’ہم کوشش کر رہے ہیں کہ تمام جماعتیں جو اپوزیشن اتحاد میں ہیں ان کے تحفظات اور خدشات دور کر کے ایک پلیٹ فارم پر متحرک ہوا جائے، لیکن اس کا دوسری جماعتوں خاص طور پر مسلم لیگ ن کو دائیں بائیں رابطوں سے اجتناب کرتے ہوئے اپوزیشن قیادت کے ساتھ مل کر کردار اداکرنے کی ضرورت ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’جس طرح پارلیمنٹ میں حکومت کو اپوزیشن نے مشترکہ شکست دی اسی طرح قانون سازی اور عوامی مفادات کے معاملات میں مل کر چلنا ناگزیر ہے۔‘
میاں مرغوب احمد کے بقول اس وقت عوام مہنگائی اور بے روزگاری سے تنگ آچکے ہیں اور حکومت سے مایوس ہونے کے ساتھ اپوزیشن کے کردار کو بھی جانچ رہے ہیں کہ کون مفادات کی سیاست کر رہا ہے اور کون عوامی مسائل کے لیے بے چین ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب تک اپوزیشن متحد نہیں ہوگی حکومت کی ناکامیوں کی سزا عوام کو ملتی رہے گی اور عوام حکومت کے ساتھ مفاد کے لیے کام کرنے والی اپوزیشن سے بھی امید نہیں رکھیں گے، جس کا نقصان جمہوریت کو ہوگا۔‘
واضح رہے کہ حزب اختلاف کی جانب سے بنائے گئے مشترکہ پلیٹ فارم پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں اختلافات کے باعث کچھ عرصہ پہلے پیپلز پارٹی نے تحفظات کے باعث علیحدگی اختیار کرلی تھی۔
اب ایک بار پھر اپوزیشن متحد ہوتی دکھائی دے رہی ہے مگر ماضی کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اتحاد کتنا موثر ہوتا ہے، اس بارے میں تحفظات برقرار ہیں۔
پی ڈی ایم نے رواں ہفتے حکومت مخالف تحریک شروع کرنے کے لیے اسلام آباد میں ہونے والے اجلاس میں 11 نومبر کی تاریخ دی تھی جو بعد میں موخر کردی گئی ہے۔