پاکستان کی دو بڑی اپوزیشن جماعتوں کی قیادت آج لاہور میں مشاورت کے لیے جمع ہوئی، سابق صدر آصف علی زرداری کی ماڈل ٹاؤن پہلی بار آمد کے موقع پر حکومت مخالف جدوجہد میں حکمت عملی بنانے کا دعوی کیاگیاہے۔
اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بلاول بھٹو زرداری کے ہمراہ پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ اپوزیشن کی جانب سے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد سے متعلق حکمت عملی تیار کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔
پریس کانفرنس میں کہا گیا ہے کہ پیپلز پارٹی کی تجاویز پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر رکھیں گے اور ان کے اعتماد سے حکمت عملی کاحتمی اعلان کیاجائےگا۔
پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے لانگ مارچ کی تاریخیں ایک کرنے پر ابھی کوئی اعلان نہیں کیاگیا جب کہ مشترکہ لائحہ عمل بنانے پر اتفاق کا دعویٰ ضرور کیاگیاہے۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں میں مختلف رائے پائی جاتی ہے، بعض کے مطابق تحریک عدم اعتماد پر اتفاق ہوا ہے جب کہ بعض سمجھتے ہیں یہ ملاقات صرف موجودہ سیاسی صورتحال میں اپوزیشن میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش ہے۔
ملاقات میں کیا بات ہوئی؟
پی پی پی اور ن لیگ کی قیادت کے درمیان ملاقات میں موجود پیپلز پارٹی پنجاب کے پارلیمانی لیڈر حسن مرتضی نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہاکہ ہماری قیادت اور ن لیگی قیادت میں یہ اتفاق ہوا ہے کہ پہلے پارلیمنٹ میں تحریک عدم اعتماد پیش کی جائے گی۔
ان کے مطابق اپوزیشن جماعتوں میں اس بات پر بھی اتفاق رائے پایا گیاکہ حکومت سے فوری نجات ضروری ہے آپس کے اختلاف بالائے طاق رکھ کر آگے بڑھا جائے۔
لیکن ابھی تک یہ طے نہیں ہوا کہ تحریک عدم اعتماد کب پیش کی جائے گی جو پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی نے الگ لانگ مارچ کرنے کا اعلان کیاہے وہ ایک ہی تاریخ کو کیاجائے۔
حسن مرتضی نے کہاکہ حکومت مخالف فیصلہ کن حکمت عملی پر دونوں طرف سےجن تجاویز پر غور کیاگیا ہے ان پر اپوزیشن لیڈر نے پی ڈی ایم قیادت کو اعتماد میں لے کر اعلان کرنے کی درخواست کی ہے۔
تجزیہ کار مزمل سہروردی کے مطابق اپوزیشن جماعتوں کی قیادت میں وزیر اعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر اتفاق ہوچکاہے تاہم اراکین کی حمایت طریقہ کار اور پیش کرنے کے وقت پر غور جاری ہے۔
انہوں نے کہاکہ آصف زرداری کی شہباز شریف کے گھر پہلی بار آمد معمولی سیاسی پیش رفت نہیں ہے۔
کیا عدم تحریک لانے کا واقعی فیصلہ حتمی ہے؟
سابق نگران وزیر اعلی پنجاب تجزیہ کار حسن عسکری نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہاکہ زرداری صاحب کی شہباز شریف کے گھر آمد اچھی سیاسی موومنٹ ہے اور دوبارہ اتحاد کا راستہ ہموار کرنے کے لیے موثر ہوسکتی ہے۔
انہوں نے کہاکہ ابھی تحریک عدم اعتماد لانے کا جواز نہیں لگتا کیونکہ اپوزیشن جماعتوں کی پارلیمان میں جو صورتحال ہے جس طرح بل پاس ہورہے ہیں ایسا نہیں لگتا کہ حکومت کے خلاف کوئی تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی یا اپوزیشن کو زیادہ اراکین کی حمایت حاصل ہے تو ایسی صورتحال میں میرا نہیں خیال کہ اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد لانے کی پوزیشن میں ہیں۔
حسن عسکری کے بقول پہلے اپوزیشن جماعتوں کو لانگ مارچ کی تاریخ ایک کرنی چاہیے پھر حکومت مخالف اتحاد ظاہر کرنے کی ضرورت ہے۔
مزمل سہروردی نے کہاکہ دونوں بڑی اپوزیشن جماعتیں تحریک عدم اعتماد لانے پر اس لیے متفق لگتی ہیں کہ یہ مناسب وقت ہے جب حکومت مہنگائی اور دیگر مسائل میں گھری ہے تو انہیں ہٹانے میں آسانی ہوگی۔
ان سے پوچھا گیاکہ تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوگی؟ انہوں نے کہاکہ اس بارے میں کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔
اس سے پہلے میڈیا سے گفتگو کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے کہاکہ وہ اختلافات بھلا کر عوامی مشکلات کے پیش نظر حکومت کوہٹانے کے لیے متحد ہیں اور حکومت کے خلاف تمام اپوزیشن جماعتوں میں اتفاق ہے اس لیے متحد ہوکر انہیں ہٹانے کی کوشش کریں گے۔
مسلم لیگ ن کی رہنما مریم نواز کا کہنا تھا کہ ن لیگی قیادت کے پی پی پی قیادت سے ذاتی اختلافات نہیں تھے دو الگ جماعتیں ہیں، بیان بازی کی حد تک ایک دوسرے پر تنقید ہوتی رہتی ہے لیکن اس ’سلیکٹڈ حکومت کو گھر بھیجنے پر ہم متفق ہیں اور نومبر سے پہلے ہی حکومت کو گھر بھیج دیں گے۔‘