افغان طالبان نے 15 اگست کو کابل پر کنٹرول کے بعد آٹھ ستمبر کو قندھار کے ملا محمد حسن اخوند کی سربراہی میں عبوری حکومت اور کابینہ کی پہلی قسط کا اعلان کیا تھا۔ طالبان دو مرتبہ کابینہ میں توسیع بھی کرچکے ہیں لیکن حکومت تاحال عبوری ہے۔
اب سننے میں آرہا ہے کہ کابینہ کے چھ ماہ پورے ہونے کے بعد شاید موجودہ کابینہ اراکین میں تبدیلیاں اور ایک مستقل کابینہ کی تشکیل دی جا سکتی ہے۔
افغانستان پر مکمل کنٹرول اور طالبان رہنماوں کے بار بار مطالبات کے باوجود پاکستان سمیت کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو ابھی تک نہ تو تسلیم کیا ہے اور نہ اس کا اشارہ دیا ہے اورایسا لگتا ہے کہ طالبان کی پالیسیوں کی وجہ سے تسلیم کرنے کا معاملہ مشکل ہو سکتا ہے۔
طالبان حکومت کے وزیر اعظم (رئیس الوزرا) ملا محمد حسن نے جنوری میں کابل میں ایک بین الاقوامی کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ ان کی حکومت نے وہ شرائط پوری کی ہیں جو ایک حکومت کو تسلیم کرنے کے لیے ضروری تھیں۔
دنیا کے لیے طالبان حکومت تسلیم کرنا موجودہ صورت حال میں آسان نہیں ہو گا کیوں کہ طالبان دنیا کے مطالبات ماننے کو تیار نہیں۔ دیگر ممالک کے سفارتکار طالبان حکومت تسلیم کرنے میں قانونی پیچیدگیوں کا بھی ذکر کرتے ہیں کیوں کہ طالبان رہنماوں کی اکثریت اب بھی سلامتی کونسل کے پابندیوں والی فہرست میں موجود ہیں۔
طالبان نے جو اپنی حکومت کو اسلامی امارت افغانستان کہتے ہیں، دنیا کے اس مطالبے کو مسترد کیا ہے کہ اپنی حکومت میں دوسروں کو بھی جگہ دے۔
طالبان حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے مجھے دسمبر میں کابل میں ایک انٹرویو میں دوسری سیاسی جماعتوں کے لوگوں کو ان کی حکومت میں شامل کرنے کو خارج از امکان قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ افغان عوام سابق حکومتوں کے لوگوں سے نفرت کرتے ہیں اور ان کی شمولیت طالبان کے لیے ممکن ہی نہیں۔
ایک وسیع البنیاد حکومت کے قیام کے لیے مطالبہ نہ صرف امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کا ہے بلکہ دسمبر میں اسلام آباد میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرا خارجہ کے اجلاس کے مشترکہ اعلامیہ میں بھی یہی مطالبہ کیا گیا تھا۔
اس میں پیش رفت کا نہ ہونا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں بڑی رکاوٹ تصور کیا جاتا ہے۔
طالبان سے اچھے مراسم رکھنے والے قطر، روس، چین، پاکستان سمیت کئی اور ملک طالبان کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں۔ پاکستانی وزیراعظم عمران خان نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ پاکستان فیصلہ دیگر دوست ممالک سے مل کر مشترکہ طور پر ہی کرے گا۔
پاکستان 1996 میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک تھا اور بعد میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارت نے طالبان کو تسلیم کیا تھا۔
اگرچہ کسی بھی ملک نے طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے لیکن امریکہ، روس، چین ، یورپی ممالک کے علاوہ بہت سے ممالک نے طالبان کے ساتھ رابطے اور بات چیت جاری رکھی ہوئی ہے۔
اکتوبر اور نومبر میں امریکہ اور طالبان کے درمیان قطر میں باضابطہ اور تفصیلی مذاکرات ہوئے تھے اور جب افغانستان کے لیے امریکی نمائندہ خصوصی ٹام ویسٹ دسمبر میں اسلامی تعاون تنظیم کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں مبصر کی حیثیت سے شرکت کرنے اسلام آباد آئے تھے تو طالبان کے وزیر خارجہ امیر خان متقی سے ملاقات ہوئی تھی۔
اس کا مطلب ہے کہ دنیا کے اہم ممالک اگرچہ طالبان کی حکومت کو تسلیم نہیں بھی کرتے لیکن پھر بھی کابل حکومت سے لاتعلق بھی نہیں رہ سکتے اور مذاکرات کی پالیسی چلا رہے ہیں جو مختلف وجوہات کی وجہ سے ضروری ہے خواہ وہ افغانستان میں انسانی بحران کو روکنا ہو یا انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے ہو۔
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 2020 کے ایک قرارداد میں کہا گیا ہے کہ اقوام متحدہ ’افغانستان کی اسلامی امارت‘ کو تسلیم نہیں کرتی تو سلامتی کونسل افغانستان کی اسلامی امارت کی بحالی کی حمایت نہیں کر سکتی۔‘
روس میں گذشتہ سال مارچ میں ہونے والے چین، پاکستان، روس اور امریکہ کے ’ٹرائیکا پلس‘ نے بھی اسلامی امارت کی بحالی کی مخالفت کی تھی لیکن طالبان نے نہ صرف اسلامی امارت کو بحال کیا بلکہ اپنے سربراہ شیخ ہبت اللہ کو ’امیر المومنین‘ کا خطاب بھی دیا ہے۔
طالبان نے خواتین کی تعلیم سے متعلق اپنا وعدہ پورا کیا ہے اور دو فروری کو گرم علاقوں کی یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں اور لڑکیوں کو بھی تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے۔
طالبان کے اعلی تعلیم کے وزیر عبدالباقی حقانی نے مجھے گذشتہ ماہ ایک ملاقات میں بتایا کہ سرمائی علاقوں میں یونیورسٹیاں کھلنے کے بعد بھی خواتین کو تعلیم کی اجازت ہو گی تاہم مخلوط تعلیم ختم کی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خواتین کو تو تعلیم کی اجازت مل گئی ہے تاہم ابھی تک تمام سرکاری اداروں میں خواتین واپس نوکریوں پرنہیں آئی ہیں لیکن طالبان کا کہنا ہے کہ یہ کام بھی آہستہ آہستہ ہو جائے گا۔
کہا گیا ہے کہ اس وقت صحت کے شعبے میں تقریباً 100 فیصد اور تعلیمی شعبوں میں تقریباً 70 فیصد خواتین کام پر آ چکی ہیں۔ اس کے علاوہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ اور امیگریشن کے محکموں میں بھی کافی خواتین ملازمتوں پر واپس آ گئی ہیں۔ تاہم خواتین کے حقوق سے متعلق تشویش موجود ہے اور مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال اور کئی خواتین کو گرفتار کرنے پر عالمی سطح پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
ابھی تک طالبان نے حکومتی معاملات کو چلانے کے لیے کوئی باضابطہ پالیسی بھی نہیں اپنائی ہے لیکن کابل میں طالبان رہنماؤں سے سنا ہے کہ خارجہ پالیسی کے علاوہ دیگر شعبوں کے لیے پالیسیوں پر کام ہو رہا ہے لیکن یہ رفتار سست ہے۔
کئی لوگوں کا موقف ہے کہ آج کے طالبان ماضی کے طالبان سے مختلف ہیں۔ پالیسیوں کی تبدیلی کی بات تو ہوتی ہے لیکن ناقدین اس موقف سے انکاری ہیں اور ان کا خیال ہے کہ طالبان نوے کی دہائی کی پالیسیوں کی طرف ہی جا رہے ہیں۔
اگر بڑی نہیں تو کچھ نہ کچھ تبدیلی تو ضرور ہے۔ جب طالبان 27 ستمبر 1996 کو کابل میں داخل ہوئے تو سابق کمیونسٹ صدر ڈاکٹر نجیب اللہ کو بھائی سمیت کابل کے ایک چوک میں سرعام پھانسی دی گئی تھی۔
ڈاکٹر نجیب 1987 تا اپریل 1992 تک افغانستان کے صدر تھے اور مجاہدین حکومت بننے کے بعد انہوں نے کابل میں اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں پناہ لی تھی۔
گذشتہ سال اگست میں طالبان کابل میں داخل ہوئے تو ان کی قیادت نے عام معافی کا اعلان کیا تھا اور سابق صدر حامد کرزی اور مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کوکوئی نقصان نہیں پہنچایا۔
سابق مجاہدین رہنما جلال الدین حقانی کے بھائی حاجی خلیل الرحمن حقانی اور بیٹے انس حقانی جو اپنے حامیوں کے ساتھ کابل میں داخل ہوئے تھے کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ کے علاوہ حزب اسلامی کے امیر گلبدین حکمتیار سے ان کے گھروں میں ملے تھے اور ان کو تحفظ کا یقین دلایا تھا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ کرزئی اور عبداللہ کا کابل میں رہنا طالبان کی ضرورت بھی ہے تاکہ دنیا کے لیے ایک پیغام ہو کہ طالبان مخالفین کو بھی برداشت کر رہے ہیں۔ لیکن یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ طالبان ان دونوں رہنماؤں کو افغانستان سے باہر جانے نہیں دے رہے ہیں تاہم لوگوں کی ان سے ملنے پر کوئی پابندی نہیں۔
کرزئی کو باہر کانفرنسوں میں دعوت دی گئی تھی لیکن ان کو جانے کی اجازت نہیں دی گئی اور عبداللہ بھی اپنی فیملی سے ملنے جانا چاہتے تھے لیکن وہ بھی ملک سے باہر نہیں جاسکے۔
سننے میں آیا ہے کہ ایک وسیع البنیاد نظام بنانے کے لیے یہ دونوں رہنما سیاسی ڈائیلاگ شروع کرنے اور لویہ جرگہ کے انعقاد کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
تاہم طالبان کسی بھی باضابطہ مذاکرات کو خارج از امکان قرار دیتے ہیں اور وہ ایران میں کئی اپوزیشن رہنماؤں کے ساتھ طالبان وزیر خارجہ امیر خان متقی کی ملاقات کو صرف ایک غیر رسمی ملاقات ہی کہتے ہیں نہ کہ مذاکرات۔
اگرچہ طالبان نے سپریم کورٹ کے لیے قطر میں طالبان مذاکراتی ٹیم کے سربراہ شیخ عبدالحکیم حقانی کو سپریم کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا ہے لیکن ابھی عدالتی نظام بھی نہیں بنایا جاسکا ہے۔
رپورٹس کے مطابق سابق ججز یا تو ملک چھوڑ چکے ہیں یا نوکریوں سے نکالا گیا ہے کیوں کہ وہ اسلامی نظام کے لیے فٹ نہیں تھے۔ لیکن طالبان کی عدالتی نظام سے متعلق اس وقت تک ایک تبدیلی کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور وہ یہ کہ ماضی کی طرح عوامی مقامات پر سزائیں نہیں دی جاتیں۔ میں کابل کے فٹبال سٹیڈیم میں سرعام سزائیں دینے کا شاہد بھی ہوں۔
طالبان حکومت کی میڈیا سے متعلق پالیسیاں بھی تنقید کی ضد میں ہیں اور افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ اگست میں کابل پر طالبان کے کنٹرول کے بعد بہت سے صحافی ملک سے باہر چلے گئے ہیں اور جو باقی ہیں وہ بھی آزادی سے کام نہیں کرسکتے۔
افغانستان نے باہر جانے والے صحافیوں میں سب سے بڑے ٹی وی چینل ’طلوع نیوز‘ کے عبدالحق عمری بھی شامل ہیں۔ عمری کے مطابق طالبان حکومت آنے کے بعد تقریبا 80 فیصد افغان صحافی افغانستان سے نکل گئے ہیں کیوں کہ ان کے لیے کام کرنا مشکل ہوچکا تھا۔
عمری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ جب تک وہ کابل میں موجود تھے انہوں نے محسوس کیا تھا کہ طالبان افغان میڈیا کو مکمل طور پر کنٹرول کررہے ہیں اور طالبان کی خواہش ہے کہ صحافی کسی موضوع پر کام کرنے سے پہلے ان سے منظوری لیں۔
طالبان ان الزامات کو مسترد کرتے ہیں اور ان کا دعوی ہے کہ میڈیا پر کوئی پابندیاں نہیں لگائی گئی ہے۔
طالبان کے آنے سے تو 20 سالہ جنگ کا خاتمہ ہوا ہے اور یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ ماضی والی کرپشن، شاہانہ اور بڑے محلات میں رہنے والی روایات اور بیوروکریٹک نظام کا خاتمہ ہوچکا ہے۔
تاہم سڑکوں پر ڈیوٹیاں دینے والے طالبان اہلکاروں کے لوگوں کے ساتھ کبھی کبھی برے برتاو کے واقعات ہوتے رہتے ہیں اور چیک پوسٹس پر نہ رکنے پر کئی بے گناہ لوگوں کو قتل بھی کیا جا چکا ہے۔