برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کے فوٹو شوٹ کے لیے رائل ایئر فورس (آر اے ایف) کے ایک طیارے کو سکاٹ لینڈ کے ہوائی اڈے سے خصوصی طور پر لایا گیا جسے دوبارہ بیس پر پہنچے کے لیے 330 میل کا فاصلہ طے کرنا پڑا۔
جمعرات کو لنکن شائر میں وڈنگٹن بیس کے دورے کے دوران رائل ایئر فورس کے اس طیارے کے ساتھ وزیر اعظم کی تصاویر نے یوکرین کے بحران کے حوالے سے جمعے کے مختلف اخبارات میں صفحہ اول پر جگہ بنائی تھی۔
بورس جانسن کا برطانوی فضائیہ کے P-8A پوسیڈن طیارے کے سامنے کھڑے ہوئے فوٹو شوٹ کیا گیا تھا اور مقصد کے لیے اس طیارے کو سکاٹ لینڈ کی مورے کونسل کے Lossiemouth ائیر بیس سے 330 میل سے زیادہ کا فاصلہ طے کرنا پڑا۔
پریس ایسوسی ایشن کی رپورٹ کے مطابق میری ٹائم پیٹرولنگ طیارہ، جسے اینٹی سب میرین جنگ کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، بدھ کی صبح 9 بجے سے کچھ دیر پہلے فوٹو شوٹ کے لیے اپنے ایئر بیس سے روانہ ہوا۔
فوٹو شوٹ کے بعد طیارے نے جمعرات کو واپس سکاٹ لینڈ کے لیے اڑان بھری جو تقریباً 6 بج کر 20 منٹ پر وزیر اعظم کے بیس کا دورہ مکمل ہونے کے بعد روانہ ہوا۔ یہ طیارہ اس سے پہلے کبھی ویڈنگٹن بیس پر نہیں اتر تھا۔
وزیر اعظم جانسن کی آر اے ایف ٹائفون جیٹ میں بیٹھے ہوئے بھی تصویریں بنائی گئی تھیں جن میں انہیں تھمز اپ کا پوز دیتے ہوئے دکھایا گیا ہے۔ اس طیارے کو بھی آر اے ایف کے Coningsby بیس سے یہاں لایا گیا تھا جو ویڈنگٹن سے 15 میل دور ہے۔
ٹائفون جیٹ جس میں بورس جانسن کو بیٹھے ہوئے دکھایا گیا تھا اور P-8A پوسیڈن کو وزیر اعظم کے دورے کے بعد ان کے متعلقہ اڈوں پر واپس بھیج دیا گیا تھا۔
برطانوی وزارت دفاع کے ترجمان نے بتایا کہ طیارے نے وزیراعظم کے دورے سے پہلے اور بعد میں تربیتی پروازیں کی تھیں۔
ترجمان نے برطانوی نشریاتی ادارے ’سکائی نیوز‘ کو بتایا کہ ’اس سے یہ ظاہر کرنا تھا کہ بہت کم تعداد میں طیارے استعمال کرتے ہوئے رائل ایئر فورس کس طرح برطانیہ اور پورے یورپ میں ہمارے نیٹو اتحادیوں کا دفاع کر سکتی ہے۔‘
ترجمان نے کہا کہ ’اس (مظاہرے سے) کسی بھی موقع پر کسی بھی جاری آپریشن پر اثر نہیں پڑا۔‘
ہوائی اڈے پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعظم جانسن نے کہا کہ وہ فورس کے عملے میں سے کچھ افسران سے بات کرنے کے لیے یہاں پہنچے ہیں جو انتہائی اہم انٹیلی جنس اکٹھا کرنے اور نگرانی کے عمل میں شامل ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بورس جانسن نے مزید کہا: ’آج یہاں سے کچھ طیارے بہت جلد بیلاروس، پولینڈ کی سرحدوں اور یوکرین کے کسی بھی علاقوں کے اوپر پرواز کرنے والے ہیں یہ دیکھنے کے لیے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے اور اس سے ہمیں وہاں کے فوجی حالات کے بارے میں مزید تفصیلی جائزہ لینے مدد ملے گی۔‘
دریں اثنا تازہ ترین سرکاری اخراجات کی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ ستمبر میں آر اے ایف وائجر کے ذریعے امریکہ کے چار روزہ دورے کے دوران جانسن کی پروازوں کی لاگت تین لاکھ 65 ہزار پاؤنڈ سے زیادہ تھی۔
45 عہدیداروں پر مشتمل ایک گروپ وزیر اعظم کے ساتھ اس طیارے میں سوار تھا جسے 2020 میں نو لاکھ پاؤنڈ میں سرخ، سفید اور نیلے رنگ کے پینٹ کے کام کے بعد ’دا بریگزٹ جیٹ‘کا نام دیا گیا تھا تاکہ بورس جانسن اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب اور صدر جو بائیڈن سے ملاقات کر سکیں۔
یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ حکومت نے ماحولیاتی کانفرنس Cop26 سے قبل موسمیات کے وزیر آلوک شرما کے چین کے دورے کے دوران ان کی پرواز پر ایک لاکھ 25 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے تھے۔ اس دورہ کا مقصد کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے اقدامات پر دستخط کرنے کے لیے بیجنگ کو راضی کرنا تھا۔
دی سن نے پہلے رپورٹ کیا تھا کہ Cop26 کے صدر اور ان کے عملے کے لیے خصوصی طور پر چارٹرڈ طیاروں کے اخراجات کے لیے بھی ایک لاکھ 25 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے گئے تھے جب کہ ستمبر کے دورے کے دوران رہائش، کھانے اور ویزوں پر مزید 18 ہزار پاؤنڈ خرچ کیے گئے۔
حکومتی اخراجات کے تازہ ترین دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ آلوک شرما اور ان کی ٹیم نے جولائی میں جمیکا، اینٹیگوا اینڈ باربودا اور بارباڈوس کے سفر کے لیے خصوصی طور پر چارٹڈ پروازیں استعمال کی تھیں جن پر 24 ہزار پاونڈ لاگت آئی۔
آلوک شرما کی پروازوں پر اس وقت سوالات اٹھائے گئے جب گلاسگو میں موسمیاتی کانفرنس کے موقع پر یہ بات سامنے آئی کہ انہوں نے 30 سے زیادہ ممالک کا سفر کیا تھا اس پر اپوزیشن کے سیاستدانوں نے ان پر کاربن کے اخراج کی کمی کے بارے ’دوغلا پن‘ رکھنے کا الزام لگایا تھا۔
ایک حکومتی ترجمان نے کہا کہ وہ گلاسگو میں Cop26 کانفرنس سے وابستہ تمام کاربن کے اخراج کو ختم کریں گے جس میں وزیر کا سفر بھی شامل تھا۔
ترجمان نے کہا ’گلاسگو سربراہی اجلاس سے پہلے کانفرنس کے صدر نے براہ راست ملاقاتوں کے لیے اہم ممالک کا سفر کیا جو موسمیاتی مذاکرات میں کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے اور موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں دیگر ممالک کو درپیش چیلنجز اور مواقع کو پہلے سے سمجھنے کے لیے اہم ہے۔‘
گذشتہ ماہ دی انڈپینڈنٹ نے انکشاف کیا تھا کہ وزیر خارجہ لِز ٹرس نے طے شدہ پرواز کی بجائے بات چیت کے لیے پرائیویٹ جیٹ کے ذریعے آسٹریلیا پہنچیں جس پر پانچ لاکھ پاؤنڈ لاگت آئی تھی۔
اگرچہ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام عوامی پیسے کا ’حیرت انگیز حد تک غلط استعمال‘ تھا تاہم لِز ٹرس نے کہا کہ حکومت کا چارٹرڈ طیارہ ان کے لیے دستیاب تھا تاکہ حکومتی وزرا سفر کر سکیں۔‘
دی انڈپینڈنٹ نے اس پر تبصرہ کے لیے 10 ڈاؤننگ سے رابطہ کیا ہے۔
© The Independent