بلوچستان بار کونسل نے اپنے لیٹر پیڈ پر جاری ایک نوٹس میں کوئٹہ کے ہوٹل مالکان کو متنبہ کیا ہے کہ وہ 15 دن میں وکلا کے یونیفارم سے مشابہت والے ویٹرز اور منیجرز کا لباس تبدیل کر دیں نہیں تو ان کے خلاف قانونی چارہ جوئی ہو گی۔
بلوچستان بار کونسل کے حکام نے نوٹس کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ نہ صرف اس قسم کی شکایات موصول ہو رہی تھیں بلکہ وکلا اس بات پر ناراض بھی تھے۔
بلوچستان بار کونسل کے سیکریٹری جنرل عادل خلیل نے بتایا کہ اس معاملے پر وکلا نے بلوچستان بار کونسل کے ایگزیکٹو کونسل ایوب ترین کو بتایا جس کے بعد کونسل کا اجلاس طلب کیا گیا۔
عادل نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اجلاس میں وکلا نے لباس کے حوالے سے اپنے تحفظات کے بارے میں بتایا جس کے بعد فیصلہ کیا گیا کہ ان تمام ہوٹلز کو اس سلسلے میں نوٹسز جاری کیے جائیں۔
سیکریٹری بلوچستان بار کونسل نے بتایا کہ اجلاس کے فیصلے کے بعد انہیں نوٹس تیار کرکے جاری کرنے کا حکم دیا گیا۔ ’میں نے کوئٹہ کے ان تمام ہوٹلز کو نوٹس جاری کردیا ہے جن کے عملے کا یونیفارم وکلا سے مشابہت رکھتا ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’ہم نے 15 دن کا وقت دیا ہے۔ اس کے بعد ہم ڈپٹی کمشنر کوئٹہ سے رابطہ کریں گے، اگر اس کے باوجود نوٹس پر عمل درآمد نہیں ہوتا تو ہم عدالت میں پٹیشن دائر کریں گے۔‘
لباس کے معاملے پر منعقدہ اجلاس میں وائس چیئرمین قاسم علی گاجیزئی، چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی ایوب ترین، چیئرمین ہیومن رائٹس کمیٹی امان اللہ کاکڑ، بین الصوبائی چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی راحب خان بلیدی نے شرکت کی۔
ادھر کوئٹہ کے ایک مشہور ہوٹل سے جب نوٹس کے حوالے سے رابطہ کیا گیا تو مینیجر نے لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں کوئی نوٹس نہیں ملا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہوٹل کے ایگزیکٹیو مینیجر ساجد نے بتایا کہ اس بات میں صداقت نہیں کہ ان کے ہوٹل کے عملے کا لباس وکلا سے مشابہت رکھتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ مشابہت کا مطلب کیا ہے کہ کالا کوٹ اور پینٹ کوئی نہیں پہن سکتا، ہمارے مینیجر بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بہتر لباس ان کا حق بنتا ہے۔
’ہمارے عملے میں ویٹر اور ایگزیکٹیو مینیجر پڑھے لکھے اور معزز پیشے سے تعلق رکھتے ہیں اس لیے ہم ان کے لباس کا بھی خاص خیال رکھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اگر انہیں نوٹس ملا تو ہم نہ صرف اس کا جواب دیں گے بلکہ ہر فورم پر اپنا دفاع کریں گے۔
مینیجر ساجد نے بتایا کہ یہ کوئی بات نہیں کہ کسی کے پیشے پر سوال اٹھایا جائے کیونکہ ہر پیشہ مہذب ہے اور کام کرنے والا شخص اسی احترام کا حق دار ہے جس طرح وکیل یا کوئی دوسرا ہے۔
وکلا رہنما سمجھتے ہیں کہ نوٹس لینے کا مطلب یہ ہے کہ جس طرح وکیل اور جج میں لباس سے فرق پتہ چلتا ہے، اسی طرح یہ مناسب نہیں کہ ہر کوئی وکیل جیسا لباس پہنے۔
پنجاب بار کونسل نے بھی ہوٹلز اور میرج ہالز کے مالکان کو نوٹس جاری کیا ہے، جس میں وکلا کے لباس سے مشابہت والے عملے کے لباس کو فوری تبدیل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے۔
پنجاب بار کونسل کے لیٹر پیدڈ پر جاری نوٹس کے مطابق: قانون کا طالب علم گریجویشن بھی کر لے تو وہ وکیل کا لباس پہننے کا مجاز نہیں۔
نوٹس میں مزید کہا گیا کہ اس گریجویٹ طالب علم کو وکیل کا لباس پہننے کے لیے انٹری ٹیسٹ اور چھ ماہ کی تربیت حاصل کرنا ہوتی ہے تب جاکر وہ وکیلوں کا لباس پہن سکتا ہے۔
بلوچستان بار کونسل کے حکام کے مطابق یہ مسئلہ بلوچستان کی سطح پر اٹھایا گیا تھا، جس کے بعد اسلام بار کونسل اور پنجاب بار کونسل نے بھی نوٹسز جاری کیے۔