آسٹریلیا کی کرکٹ ٹیم پاکستان کے دورے پر پہنچ چکی ہے آسٹریلیا کی پاکستان آمد دنیائے کرکٹ میں بہت بڑی بات سمجھی جا رہی ہے اور دنیا بھر سے شائقین کرکٹ کی اس سیریز کے لیے بے چین ہیں کہ کب سیریز شروع ہو اور زبردست کرکٹ دیکھنے کو ملے۔
بے چین تو آسٹریلین کھلاڑی بھی ہیں جو 15 گھنٹے کی طویل پرواز کے باوجود جب پاکستان پہنچے تو سوشل میڈیا پر اپنی خوشیوں کا اظہار برملا کرنے لگے۔
اس سیریز سے پاکستانیوں کی بے چینی تو نظر آتی ہے اور اس کی وجہ بھی ہے لیکن آسٹریلین شائقین بھی اسے بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ اگرچہ اس سیریز کا کسی طرح ایشز سے مقابلہ نہیں کیا جا سکتا لیکن کھلاڑیوں کا جوش و خروش اس کو ایشز سے کم بھی نہیں ہونے دے رہا ہے۔
پاکستان نے آسٹریلیا کے ساتھ متعدد سیریز اپنے ملک یا ان کے ملک میں کھیلی ہیں لیکن چند مقابلے کرکٹ کے یادگار مقابلے بن گئےہیں۔ ان سب کو دم تحریر میں لانا تو ممکن نہیں لیکن چند ایسے ہیں جن کے بغیر کرکٹ کا فسانہ تشنہ رہے گا۔
سرفراز نواز کی ایک رن دے کر سات وکٹیں
پاکستان ٹیم 1979 میں مشتاق محمد کی قیادت میں آسٹریلیا کے دورے پر تھی۔ میلبرن میں پہلے ٹیسٹ میں پاکستان ٹیم نے دوسری اننگز میں ماجد خان کی شاندار سنچری کے سہارے 353 رنز بنا کر آسٹریلیا کو 382 رنز کا ہدف دے دیا تھا۔
میلبرن کی وکٹ پر مشتاق محمد کا خیال تھا کہ آخری اننگز میں بیٹنگ آسان نہ ہو گی، لیکن آسٹریلیا نے ان کے تمام اندازے غلط ثابت کر دیے۔ اینڈریو ہلڈچ، کم ہیوز اور ایلن بورڈر نے جم کر بیٹنگ کی اور پاکستانی بولروں کا بھرکس نکال دیا۔
ایلن بورڈر سنچری سکور کر چکے تھے۔ پانچویں دن چائے کا وقفہ جب ہوا تو آسٹریلیا کا سکور تین وکٹ کے نقصان پر 305 تک پہنچ چکا تھا۔ صرف 76 رنز کی مزید ضرورت تھی جو بظاہر آسان ترین ہدف تھا۔
چائے کے وقفے کے بعد مزید ڈیڑھ گھنٹے کے کھیل میں مذکورہ ہدف ایلن بورڈر اور کم ہیوز کے لیے بچوں کا کھیل تھا، پاکستانی بولر مایوس ہو چکے تھے ۔
جب پاکستان ٹیم وقفے کے بعد دوبارہ گراؤنڈ میں پہنچی تو سرفراز نواز کے دل میں نجانے کیا آیا کہ مشتاق محمد سے گیند لے لی اور کہا، ’کپتان اب تیار ہو جاؤ!‘
سرفراز جو عموماً 30-35 قدم کے رن اپ سے گیند کرتے تھے اس دن چھوٹے سے رن اپ سے گیند کرنے لگے۔ ان کے ہاتھ میں پرانی گیند تھی جس پر جگہ جگہ رگڑ کے نشان پڑ چکے تھے۔
سرفراز نے اوور کی پہلی گیند سینچری میکر ایلن بورڈر کو کروائی جو اگلے قدم پر کھیلنے گئے تو حیران ہو گئے کیوں کہ گیند نے آؤٹ سوئنگ کا رخ ہوتے ہوئے باہر نکلنے کے بجائے اندر کا راستہ لیا، اور ان کے بلے کا کنارہ لیتی ہوئی وکٹ اڑا گئی۔ بورڈر کافی دیر کھڑے سوچتے رہے ایسا کیسا ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ اس زبردست معرکے کی پہلی کڑی تھی۔ اگلی ہی گیند پر زخمی گریم ووڈ گیند کی حرکت سمجھ نہ سکے اور وسیم باری کو وکٹ کے پیچھے کیچ دے بیٹھے۔ دو گیندوں پر دو وکٹیں۔ اب سرفراز ہیٹ ٹرک کے لیے تیار تھے ۔
نئے بلے باز پیٹر سلیپ نے ہیٹ ٹرک تو بچالی مگر سرفراز کے اگلے اوور میں کلین بولڈ ہوگئے۔
بس کیا تھا، اب تو لائن ہی لگ گئی۔
سرفراز نے کم ہیوز کو سلپ میں کیچ آؤٹ کرایا اور بقیہ تین بلے بازوں کو صرف چند اوورز کھیلنے کو ہی مل سکے، کیوں کہ سرفراز کی بولنگ اس دن کسی کی سمجھ میں نہیں آ رہی تھی۔ ہر ایک بے بس تھا ۔۔۔ صرف پانچ رنز پر سات کھلاڑی آؤٹ ہو گئے۔ ان ساتوں کھلاڑیوں کو سرفراز نواز نے صرف ایک رنز کے عوض پویلین میں پہنچا دیا۔
سرفراز نواز نے جب ایلن ہرسٹ کو آؤٹ کیا تو وہ تاریخ رقم کر چکے تھے۔ اننگز میں نو وکٹ لے کر وہ جم لیکر کے مد مقابل پہنچ چکے تھے لیکن اس سے بڑا کارنامہ محض ایک رن دے کر سات کھلاڑیوں کو آؤٹ کرنا تھا۔
چشم زدن میں کارنامہ ہو گیا تھا اور آسٹریلین ٹیم یقین نہیں کرپا رہی تھی کہ وہ ہار چکی ہے۔
پاکستان ہارتی ہوئی بازی جیت چکا تھا۔
ریورس سوئنگ؟
سرفراز نواز کی اس بولنگ کے بعد میڈیا نے اس کو بال ٹیمپرنگ سے ملانے کی کوشش کی تھی لیکن سرفراز کے اس بولنگ سپیل کے دوران امپائر مسلسل گیند کا معائنہ کرتے رہے تھے اور مطمئن تھے۔ سرفراز نواز کو ریورس سوئنگ کا موجد کہا جاتا ہے، لیکن انہوں نے بعد میں ایک انٹرویو میں کہا کہ انہوں نے اس دن سیدھی سیدھی بولنگ کروائی تھی نہ کہ ریورس سوئنگ۔
اس دن سرفراز نواز کی بولنگ کچھ یوں تھی: 35.4 اوور، سات میڈن، 86 رنز، نو وکٹیں۔ یہ اس وقت تک کسی بھی پاکستان بولر کی بہترین کارکردگی تھی، تاآں کہ عبدالقادر نے انگلینڈ کے خلاف 56 رنز دے کر نو وکٹیں لے کر یہ ریکارڈ توڑا۔
اگر فضل محمود اوول کے ہیرو ہیں تو اس حیران کن کارکردگی کی بنا پر سرفراز نواز آج بھی میلبرن کے ہیرو کہلائے جاتے ہیں۔