انڈیا نے آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں نیوزی لینڈ کو شکست دے کر ٹائٹل اپنے نام کر ہی لیا۔
اس ایونٹ میں انڈیا واحد ٹیم ہے جو ناقابل شکست رہی، اور ناقدین تو اس کی وجہ ان کے ایک ہی میدان پر تمام میچز کھیلے جانے کو قرار دیتے ہیں۔
لیکن یہ کہنا شاید درست نہ ہو گا کیونکہ اگر انڈیا کی حالیہ کارکردگی کو دیکھا جائے تو وہ لگاتار جیتتے ہی آ رہے ہیں۔
آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی سے قبل انڈیا نے ٹی 20 ورلڈ کپ جیتا اور اس سے بھی پہلے 50 اووروں کے ورلڈ کپ کے بھی تمام ہی مقابلوں میں فتح حاصل کی سوائے فائنل کے۔
اس چیمپیئنز ٹرافی میں اور اس سے کچھ عرصہ پہلے سے ہی نیوزی لینڈ بھی حیران کن کارکردگی دکھاتا فائنل میں پہنچا تھا، لیکن وہاں انڈین سپن کے جال میں پھنس گیا۔
ویسے یاد ہی نہیں رہا کہ یہ تحریر لکھنے کا مقصد انڈیا اور نیوزی لینڈ کے درمیان ہوئے فائنل پر بات کرنا نہیں بلکہ یہ یاد دلانا تھا کہ اس ایونٹ کا میزبان پاکستان تھا۔
کیا آپ کو بھی یاد تھا کہ میزبان پاکستان ہی تھا؟
کیونکہ پہلے ہی دو گروپ میچز ہارنے کے بعد سے تو پاکستان کا ذکر کہیں نہیں سنا گیا، اور ایسا لگ رہا تھا جیسے ان سب ٹیموں کو کھیلنے کے لیے میدان چاہیے تھے جو پاکستان نے فراہم کر دیے۔
چلیں ہار جیت تو کھیل کا حصہ ہے اور کیا ہوا اگر پاکستان میزبان ہوتے ہوئے بھی ٹورنامنٹ سے باہر ہونے والا پہلا ملک بنا لیکن انگلینڈ بھی تو بغیر کوئی میچ جیتے ہی واپس چلا گیا۔
جس ٹورنامنٹ کے لیے پاکستان نے ایک طویل ’جنگ لڑی‘ اور بضد رہا کہ میزبانی تو وہ ہی کرے گا چاہے کچھ بھی ہو جائے۔ پھر آہستہ آہستہ ہائبرڈ ماڈل پر مان ہی گیا اور انڈیا کے دبئی میں کھیلنے کے انتظامات شروع ہو گئے۔
اس کے بعد ابھی میزبانی حاصل کرنے کی جیت کا جشن شروع ہی ہوا تھا کہ نیا معاملہ سامنے آ گیا کہ انڈیا اپنی شرٹ پر ’میزبان پاکستان‘ کا نام لکھے گا یا نہیں۔
دونوں ملکوں کے میڈیا ادارے دھڑا دھڑ خبریں چھاپتے رہے کہ پاکستان کا نام ہو گا، نہیں ہو گا، ہو گا، نہیں ہوگا۔ آخرکار آئی سی سی کو بیچ میں کودنا پڑا اور انڈیا کو کہنا پڑا کہ وہ وہی کرے گا جو قانون کہے گا۔
یہ معاملہ حل ہوا اور کسی طرح ایونٹ کا آغاز کراچی کے میدان پر سے پاکستان فضائیہ کے طیاروں کی سلامی سے ہو ہی گیا اور میزبان اپنا پہلا ہی میچ بھی ہار گیا۔
لیکن پھر سے شور اٹھا کہ پاکستان ہی میزبان ہے تو انڈیا کے پہلے میچ کے دوران سکرین پر لوگو پر پاکستان لکھا کیوں نہیں؟
اچھا جی غلطی ہو گئی۔ آئندہ خیال رکھا جائے گا۔۔۔۔ ایسا ہی کچھ آئی سی سی نے کہہ کر ایونٹ کو آگے بڑھا دیا۔ اس کے بعد لاہور میں انگلینڈ اور آسٹریلیا کے میچ میں چند سکینڈز کے لیے انڈیا کا قومی ترانہ ’غلطی‘ سے چل گیا۔
جس پر شور مچا تو پی سی بی نے یہ کہہ کر بات ختم کردی کہ تمام انتظامات آئی سی سی کر رہا ہے اور یہ غلطی بھی انہی سے ہوئی ہے ہمارا کوئی لینا دینا نہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گزرے واقعات کی یہ طویل داستان آپ کو سنانے کا مقصد یہ پوچھنا تھا کہ جس ایونٹ کے آغاز سے قبل ہر روز سٹیڈیمز کا دورہ کرنے والے، پاکستان اور انڈیا کے میچ سے قبل دبئی تک پہنچ جانے والے پی سی بی حکام ایونٹ کے اختتام پر کہاں تھے؟
کیا ایونٹ کا فائنل بھی میزبان کی ذمہ داری نہیں ہوتی؟ کیا فائنل میں میزبان ملک سے تعلق رکھنے والے کسی بھی عہدیدار کو موجود نہیں ہونا چاہیے تھا؟
یا پھر پاکستان صرف لوگو کی حد تک ہی میزبان تھا؟
یہ سوال صرف ہم ہی نہیں اٹھا رہے بلکہ سابق کھلاڑی اور دیگر صحافی و سوشل میڈیا صارفین نے بھی اٹھائے ہیں۔
دنیا کے تیز ترین بولر شعیب اختر بھی آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل کی اختتامی تقریب میں کسی بھی پاکستانی کے نہ ہونے پر حیران ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان یہ چیمپیئنز ٹرافی کی میزبانی کر رہا تھا اور پاکستان کرکٹ بورڈ کا کوئی نمائندہ یہاں کھڑا نہیں تھا۔ یہ بات میری سمجھ سے باہر ہے۔‘
شعیب اختر نے کہا کہ ’یہ ورلڈ سٹیج ہے آپ کو یہاں ہونا چاہیے تھا۔ افسوس ہے کہ کسی پاکستانی بورڈ ممبر کو نہیں دیکھا۔ اس بارے میں سوچیں۔‘
انڈین صحافی اور اینکر روش بھشت نے فائنل میچ کے بعد ہونے والی تقریب کی تصویر شیئر کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’میزبان بورڈ پی سی بی کے صدر محسن نقوی کہاں ہیں۔‘
طارق خان کھٹر نامی صارف نے بھی ایسا ہی سوال کیا: ’اختتامی تقریب محسن نقوی (میزبان) کے بغیر؟‘
ایک اور ایکس صارف نے لکھا کہ ’چیمپیئنز ٹرافی کی اختتامی تقریب میں پاکستان کرکٹ بورڈ کے نمائندوں کی عدم موجودگی سوال اٹھا رہی ہے۔ ٹورنامنٹ کے میزبان ہونے کے ناطے ان کے ہونے کی امید کی جا رہی تھی۔ پی سی بی چیئرمین کی صحت مبینہ طور پر ناساز تھی، دیگر اہلکاروں کو ان کی جگہ دبئی بھیجا گیا تھا۔‘
پاکستان کے سپورٹس جرنلسٹ فیضان لاکھانی لکھتے ہیں کہ ’چیئرمین پی سی بی نہیں جا سکے تاہم پی سی بی کے سی او او سمیر احمد سید جو چیمپیئنز ٹرافی 25 کے ٹورنامنٹ ڈائریکٹر بھی تھے فائنل میں موجود تھے۔ انہیں پی سی بی کی نمائندگی کرنے کے لیے سٹیج پر ہونا چاہیے تھا۔ یہ بے مثال ہے۔‘
ویسے پاکستان کے لیے یہ عالمی مقابلہ جزوی انعقادکے علاوہ کچھ زیادہ یاد رکھنے والا ہے بھی نہیں۔