اسلام آباد ہائی کورٹ میں مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو سے متعلق سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ بھارت کو ایک اور موقع دے کر دیکھتے ہیں شاید وہ کلبھوشن کو انسان سمجھ کر فیصلہ کرے اور ان کے لیے وکیل مقرر کرتے ہوئے کیس کی پیروی کرے۔
تین مارچ کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ کی سربراہی میں لارجر بینچ نے کلبھوشن یادیو سے متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عملدرآمد کا معاملہ اور کلبھوشن جادیو کو حکومتی وکیل فراہم کرنے کے لیے وزارت قانون کی درخواست پر سماعت کی۔
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل نے بھارت سے کلبھوشن سے متعلق رابطوں کی پیش رفت سے عدالت کو آگاہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان عالمی عدالت کے فیصلے پر ’ایکسٹرا مائلز‘ جا چکا ہے۔ ’بھارت کو نہ پاکستان کے پارلیمانی اقدامات پر اعتماد ہے اور نہ پاکستانی عدالتوں پر۔‘
چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ’شاید بھارت عالمی عدالت کا فیصلہ ٹھیک سے سمجھ نہیں پایا، عالمی عدالت نے نظرثانی کا معاملہ پاکستان پر ہی چھوڑا تھا۔‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا یہ مناسب نہیں ہو گا کہ کلبھوشن یادیو بھارتی شہری ہے تو انہیں دوبارہ اس سے متعلق سوچنے کا موقع دیا جائے؟
اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت نے عالمی عدالت انصاف میں کیس کیا کہ کلبھوشن ان کا شہری ہے جس تک قونصلر رسائی نہیں ملی۔ اب عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ آنے کے بعد بھارت خود کیس کی پیروی نہیں چاہتا۔
’عدالت اگر ایک اور موقع دینا چاہتی ہے تو یہ بھی مناسب بات ہے۔‘
واضح رہے کہ مبینہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو پاکستان کے ضلع بلوچستان کے علاقے مشخیل سے تین مارچ 2016 کو جاسوسی اور ’تخریب کاری‘ کی کارروائیوں میں ’رنگے ہاتھوں‘ گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ نے مارچ 2016 میں ان سے متعلق تفصیلات جاری کیں تھیں۔
کلبھوشن یادیو کی گرفتاری کو چھ برس گزر چکے ہیں لیکن عالمی عدالت کے فیصلے کی روشنی میں بھارت نے کلبھوشن یادیو کو تاحال وکیل فراہم نہیں کیا ہے۔
بھارتی سفارت خانے نے بھی اس معاملے پر کوئی موقف نہیں دیا جبکہ پاکستان کے اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے جمعرات کو کلبھوشن یادیو سی متعلق عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کیس میں عدالت کو بتایا کہ بھارت کلبھوشن کو وکیل فراہم کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت چاہتا ہے کہ یہاں کارروئی رک جائے اور وہ عالمی عدالت انصاف جا سکے۔
اٹارنی جنرل نے مزید بتایا کہ بھارت کہتا ہے کہ ’نہ آپ کا پہلا قانون ٹھیک تھا نہ ہی نیا ایکٹ۔ بھارت صرف اور صرف پاکستان کو شرمندہ کرنا چاہتا ہے۔‘
چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اس معاملے پر کوئی ایکٹ بھی پاس ہو گیا ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’جی، گذشتہ برس دسمبر میں اس معاملے پر ایکٹ منطور ہو گیا تھا۔‘
’اس ایکٹ کے مطابق کسی غیر ملکی سے متعلق ایسی درخواست وزارت قانون دائر کر سکتی ہے۔‘
اس موقع پر چیف جسٹس نے کہا کہ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے میں پاکستان کی عدالت پر اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر اگر کوئی ایک فریق عمل نہ کرے تو اس کے کیا اثرات ہوں گے؟
اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ بھارت انتظار کر رہا ہے کہ یہاں عدالتی کارروائی ختم ہو تو وہ عالمی عدالت انصاف جائے۔
’کہا گیا تھا کہ یہ مبارک پٹیل صاحب ہیں جبکہ ایسا نہیں تھا۔ جب اس طرح کے انٹیلی جنس افسر بھجواتے ہیں تو ان کا ایک ڈیزائن تھا۔‘
چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بھارت ’اپنے شہری کو انسان کے طور پر بھی دیکھے۔ کلبھوشن بھارتی شہری ہے لیکن ہم اسے ایک انسان کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔‘
اٹارنی جنرل نے جواباً کہا کہ ’بھارت کلبھوشن کو صرف ایک اثاثہ سمجھتا ہے انسان نہیں۔‘
’بھارت نے جب کلبھوشن کو بھیجا تو ان کو انسان کے کاغذوں سے نکال دیا۔ بھارت نے تو کہا تھا کہ یہ مبارک پٹیل ہے کلبھوشن نہیں۔ بھارت اس لیے عدالت نہیں آ رہا کہ اس کا منصوبہ ناکام ہو جائے گا۔‘
عدالت نے بھارت کو مہلت دیتے ہوئے کیس کی سماعت 13 اپریل تک ملتوی کر دی ہے۔
کلبھوشن یادیو کیس میں کب کیا ہوا؟
پاکستانی حکام کے مطابق بھارتی کمانڈر کلبھوشن یادیو پاکستان میں جاسوسی اور دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث تھے اور انہیں تین مارچ 2016 کو مشخیل، بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔
دفتر خارجہ کی جانب سے کیس کی دستیاب تفصیلات کے مطابق ابتدائی تفتیش میں بھارتی مبینہ جاسوس نے اعتراف کیا تھا کہ وہ بھارتی نیوی میں حاضر سروس کمانڈر رینک کے افسر ہیں اور 2013 سے خفیہ ایجنسی ’را‘ کے لیے کام کر رہے ہیں۔
بھارتی جاسوس چابہار میں مسلم شناخت کے ساتھ بطور بزنس مین کام کر رہے تھے۔ اس دوران کلبھوشن 2003 ، 2004 میں کراچی بھی آئے جبکہ بلوچستان اور کراچی میں دہشتگردی کی کئی وارداتوں میں بھی ان کے مبینہ طور پر نیٹ ورک کا ہاتھ تھا۔
گرفتاری کے بعد حکومت پاکستان نے 24 مارچ 2016 کو ابتدائی تحقیقات کے نتائج میڈیا کے سامنے رکھے، 25 مارچ 2016 کو پاکستان نے بھارتی سفیر کو طلب کر کے ’را‘ کے جاسوس کے غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہونے اور کراچی ، بلوچستان میں دہشت گردی میں ملوث ہونے پر باضابطہ احتجاج کیا اور احتجاجی مراسلہ دیا۔
اسی روز پاکستان نے P5 اور یورپی یونین کو بھی کلبھوشن یادیو کے معاملے پر بھی بریف کیا۔
اس کے بعد 29 مارچ 2016 کو کلبھوشن یادیو کے اعترافی بیان کی ویڈیو جاری کی گئی، آٹھ اپریل 2016 کو ابتدائی ایف آئی آر سی ٹی ڈی کوئٹہ میں درج کی گئی جس کے بعد باقاعدہ تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔
دو مئی 2016 سے 22 مئی 2016 تک کلبھوشن یادیو سے تفتیش کی گئی جبکہ 12 جولائی 2016 کو جے آئی ٹی کی تشکیل ہوئی۔
22 جولائی 2016 کو کلبھوشن یادیو نے مجسٹریٹ کے سامنے اپنا اعترافی بیان ریکارڈ کروایا۔
21 ستمبر 2016 کو کلبھوشن یادیو کے خلاف فیلڈ جنرل کورٹ مارشل میں کارروائی کا آغاز کیا گیا۔ 24 ستمبر کو شہادتیں ریکارڈ کی گئیں۔ تین سے زائد سماعتیں ہوئیں جس میں چوتھی سماعت 12 فروری 2017 کو ہوئی۔
23 جنوری 2017 کو پاکستان نے کلبھوشن کیس میں تحقیقات کے لیے بھارتی حکومت سے معاونت کی درخواست کی۔ 21 مارچ 2017 کو پاکستان نے بھارت سے تحقیقات میں معاونت کا مؤقف ایک بار پھر دہرایا اور یہ واضح کیا کہ کلبھوشن تک کونسلر رسائی کے لیے معلومات کا تبادلہ ضروری ہے۔ لیکن بھارت کی جانب سے اس وقت تک کوئی جواب نہیں دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
10 اپریل 2017 کو ملٹری کورٹ نے کلبھوشن یادیو کے پاکستان میں دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے جرم میں سزائے موت کا حکم دیا جس کی توثیق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کی۔
پھانسی کی سزا کے بعد بھارت نے نو مئی 2017 کو عالمی عدالت انصاف میں کلبھوشن کی پھانسی کے خلاف اپیل دائر کی اور موقف اپنایا کہ ان پر چلایا جانے والا مقدمہ فیئر ٹرائل نہیں تھا اور سزا سنائے جانے سے قبل ان تک بھارت کو سفارتی رسائی نہیں دی گئی۔
اس لیے انسانی حقوق کے تحت کلبھوشن کی رہائی کا حکم جاری کیا جائے۔ بھارت نے پاکستان میں یہ مقدمہ فوجی عدالت میں چلائے جانے پر بھی اعتراض کیا تاہم بھارت نے عالمی عدالت میں ان کی ریٹائرمنٹ کے ثبوت پیش نہیں کیے۔
عالمی عدالت انصاف نے کیا فیصلہ دیا تھا؟
عالمی عدالت انصاف میں چار دن تک جاری رہنے والی سماعت کے بعد 21 فروری 2019 کو فیصلہ محفوظ کیا گیا جو 17 جولائی 2019 کو سنایا گیا۔
فیصلے میں کلبھوشن یادیو کی بریت کی درخواست کو مسترد کیا گیا تھا جبکہ عالمی عدالت نے یہ موقف اپنایا تھا کہ کلبھوشن یادیو کو سنائی جانے والی سزا کو ویانا کنونشن کے آرٹیکل 36 کی خلاف ورزی تصور نہیں کیا جاسکتا۔
اس کے علاوہ عالمی عدالت انصاف نے کلبھوشن کی رہائی اور بھارت واپسی اور پاکستان کی فوجی عدالت سے کلبھوشن کی سزا ختم کرنے کی بھارتی درخواست بھی رد کر دی تھی۔
عالمی عدالت انصاف نے پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ کلبھوشن کو قونصلر رسائی دے اور اسے دی جانے والی سزا پر نظر ثانی کرے۔
اس کے بعد 20 مئی 2020 کو پاکستان نے آئی سی جے ریویو اینڈ ری کنسیڈریشن آرڈننس لاگو کیا جس کے مطابق کمانڈر کلبھوشن یادیو یا اس کا وکیل آرڈیننس جاری ہونے کے 60 دن کے اندر رحم کی اپیل دائر کرسکتے ہیں، لیکن کلبھوشن نے اپیل کا حق لینے سے انکار کر دیا اور بھارت نے بھی دفتر خارجہ کی جانب سے رابطہ کرنے کے باوجود کلبھوشن کیس میں وکیل مقرر کرنے پر کوئی دلچسپی ظاہر نہیں کی۔
حکومت نے سیکریٹری قانون کے توسط سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی۔ تاکہ کلبھوشن کے لیے وکیل مقرر کر کے عالمی عدالت انصاف کے فیصلے پر عمل درآمد کرایا جا سکے۔
کیس تاحال جاری ہے جس میں ابھی تک بھارت کی عدم دلچسبئ کے باعث وکیل تقرری کا معاملہ حل نہ ہو سکا۔