پاکستان کی قومی اسمبلی نے زیر حراست بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو کو فوجی عدالت کی جانب سے دی جانے والی سزائے موت کے خلاف اپیل کا حق دینے کے لیے قانون منظور کر لیا۔
حزب اختلاف کے اراکین کی غیر موجودگی میں قومی اسمبلی نے جمعرات کو انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس (ریویو اینڈ ریکنسیڈیریشن) آرڈیننس 2020 منظور کیا۔
مذکورہ قانون کے تحت فوجی عدالت سے سزا یافتہ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادو پاکستان کی کسی ہائی کورٹ میں اپیل دائر کر سکتا ہے۔
بھارتی بحریہ کے 50 سالہ افسر کلبھوشن یادو کو مارچ 2016 میں صوبہ بلوچستان سے گرفتار کیا گیا تھا۔
پاکستان کی ایک فوجی عدالت نے انہیں جاسوسی اور دہشت گردی کے الزامات میں اپریل 2017 میں سزائے موت سنائی۔
بھارت نے دا ہیگ میں واقع بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) میں درخواست دائر کی تھی، جس میں پاکستان پر اس کے سزا یافتہ شہری تک قونصلر رسائی اور اسے اپیل کی سہولت فراہم نہ کرنے کی شکایت کی گئی۔
آئی سی جے نے جولائی 2019 کے فیصلے میں پاکستان کو کلبھوشن یادو کی سزا کا موثر جائزہ اور نظرثانی کرنے اور انہیں بغیر تاخیر قونصلر رسائی فراہم کرنے کی ہدایت کی تھی۔
آئی سی جے کے فیصلے کے حوالے سے قانون جمعرات کو اسمبلی نے منظور کر دیا۔
اس قانون میں ایک شق ایسی بھی ڈالی گئی ہے جس کے تحت صدر مملکت اس قانون پر عمل درآمد میں کسی قسم کی مشکلات کی صورت میں مناسب احکامات جاری کر سکتے ہیں۔
قومی اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے وفاقی وزیر قانون و انصاف بیرسٹر فروغ نسیم نے کہا کہ اگر پاکستان آئی سی جے کے فیصلے پر عمل درآمد کرتے ہوئے کلبھوشن یادو کو قونصلر رسائی اور اپیل کی سہولت فراہم نہیں کرتا تو بھارت اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے رجوع کر سکتا ہے، جو اسلام آباد کے لیے نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’حکومت یہ بل بھارت کے ناپاک عزائم کے خلاف لائی ہے، اگر یہ قانون نہیں لاتے تو بھارت سلامتی کونسل میں چلا جاتا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل پاکستان مسلم لیگ ن کے احسن اقبال نے الزام عائد کیا کہ حکومت کلبھوشن یادو کو این آر او دے رہی ہے جس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس بل کی منظوری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حزب اختلاف کو اس اور دوسرے بلوں پر بات کرنے کا موقع فراہم نہیں کیا گیا۔
’بل پڑھنے کا حق نہیں، بل پر بحث کا حق نہیں، اپنے ووٹ کے شمار ہونے اور اختلاف کو ریکارڈ پر لانے کا حق نہیں، قانون سازی میں پارلیمان کا کردار مکمل طور پر مجروح کردیا گیا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ یہ انتہائی قابل مذمت ہے، الیکشن ایکٹ میں ترامیم اور کلبھوشن کو این آر او دینے کے بلوں کو زبردستی منظور کرایا گیا۔
اس سے قبل حزب اختلاف نے حکومت کی طرف سے پے در پے قانون سازی کے خلاف احتجاج کے طور پر قومی اسمبلی میں شور شرابا کیا جبکہ اپوزیشن نے ایوان میں کورم کی کمی کی نشاندہی کی۔
تاہم اپوزیشن کے ہنگامے اور شور شرابے کے باوجود ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے حکومتی بینچوں کو قانون سازی کی اجازت دی، انہوں نے کورم کی نشاندہی پر بھی توجہ نہیں دی۔
حزب اختلاف کے اراکین نے ڈپٹی سپیکر کے رویے کے خلاف احتجاج کے طور پر سپیکر ڈائس کا گھیراؤ بھی کیا۔
بعد میں حزب اختلاف کے اراکین ایوان سے واک آؤٹ کر گئے اور اسی دوران ایوان کی صدارت کرنے والے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے کلبھوشن یادو سے متعلق بل پر ووٹنگ کرا کے قانون منظور کروا لیا۔
بعد ازاں حزب اختلاف کی جماعتوں کے اراکین نے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے خلاف قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد جمع کرائی۔