ٹرمپ ٹیرف اثرات: بیجنگ میں ریستوران کے مینو سے امریکی گوشت غائب

بیجنگ میں امریکی طرز کے ریستوران ہوم پلیٹ بار بی کیو کا عملہ مینو دوبارہ چھاپ رہا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کے باعث امریکی بیف جو کبھی اس ریستوران کا مرکزی جزو ہوتا تھا، اب جلد ہی مینو سے ہٹا دیا جائے گا۔

بیجنگ میں امریکی طرز کے ریستوران ہوم پلیٹ بار بی کیو کا عملہ مینو دوبارہ چھاپ رہا ہے۔ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ کے باعث امریکی بیف جو کبھی اس ریستوران کا مرکزی جزو ہوتا تھا، اب جلد ہی مینو سے ہٹا دیا جائے گا۔

ہوم پلیٹ میں استعمال ہونے والا بڑا گوشت، جو پہلے مکمل طور پر امریکہ سے منگوایا جاتا تھا، اب تیزی سے آسٹریلیا سے لیا جا رہا ہے۔ یہ ریسٹوران ہر ماہ سینے کا تقریباً سات سے آٹھ  ٹن گوشت استعمال کرتا ہے، اور جب چند ہفتے میں فریزر میں رکھا ہوا امریکی بیف ختم ہو جائے گا، تو جنوبی انداز کا یہ بار بی کیو ریستوران صرف آسٹریلوی گوشت پیش کرے گا۔

امریکی بیف ان ہزاروں متاثرہ اشیا میں سے ایک ہے جو دنیا کے دو سب سے بڑے تجارتی شراکت داروں کے درمیان جاری تجارتی جنگ کا شکار بن گئیں۔

یہ جنگ شروع ہونے سے پہلے بھی امریکی بیف مہنگا تھا، لیکن بیجنگ کی جانب سے عائد کردہ 125 فیصد جوابی ٹیرف جو پہلے سے موجود 22 فیصد ٹیرف کے علاوہ ہے، نے اسے ناقابل برداشت بنا دیا۔

ہوم پلیٹ کے آپریشنز ڈائریکٹر چارلز ڈی پلیٹ کا کہنا ہے کہ ’ان حالات نے ہمارے لیے امریکی بیف کا استعمال جاری رکھنا انتہائی مشکل بنا دیا۔‘

اگرچہ چین کو ہر ماہ 12 کروڑ 50 لاکھ ڈالر کی امریکی بیف برآمدات، اشیا کی دو طرفہ تجارت کے وسیع حجم میں ایک معمولی حصہ ہیں، مگر بیجنگ میں مینو سے بیف کا غائب ہونا بحرالکاہل کے دونوں جانب ہزاروں اشیا کے ممکنہ انجام کی ایک جھلک ہے۔

ڈی پلیٹ نے کہا: ’جب ہمارے سٹاک ختم ہو جائیں گے، تو ہم مکمل طور پر آسٹریلوی گوشت پر منتقل ہو جائیں گے۔ ہمیں اب بھی لگتا ہے کہ ذائقہ، معیار اور خوشبو وہی ہے، لیکن ہمیں مارکیٹ کے دباؤ اور ٹیرف کی وجہ سے تبدیلی کرنا پڑی۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ سؤر کی چانپوں کے معاملے میں بھی تبدیلی آئے گی۔ وہ اب کینیڈا سے درآمد کی جائیں گی۔

دارالحکومت بیجنگ میں بیف سپلائر، جنہوں نے ٹیرف سے متعلق معاملے کی حساسیت کے باعث نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی، کے مطابق اس ریسٹوران چین کا تجربہ، جس کی چین میں تین شاخیں ہیں اور جسے  ٹیکساس کے رہائشی امریکی شہری نے شریک بانی کی حیثیت سے قائم کیا، اب بیجنگ کے متعدد ریستورانوں میں دہرایا جا رہا ہے۔

بیف سپلائر کا کہنا تھا کہ ’انہیں آسٹریلوی بیف کی طرف جانا ہو گا۔ حتیٰ کہ امریکی سٹیک ریستورانوں کو بھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈی پلیٹ نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ ہوم پلیٹ آسٹریلوی بیف کے لیے کتنی قیمت ادا کر رہا ہے۔

امریکی بیف تو تجارتی جنگ سے پہلے ہی مہنگا ہو رہا تھا، جس کی ایک وجہ مسلسل خشک موسم کے باعث پیدا ہونے والی قلت تھی، جس نے مویشیوں کی تعداد کو 1950 کی دہائی کے بعد کی کم ترین سطح پر پہنچا دیا۔

یہ بلند قیمتیں چین جیسے ملک میں برداشت کرنا مشکل تھا جہاں کمزور معیشت نے صارفین کو قیمت کے معاملے میں خاص طور پر حساس بنا دیا ہے۔

گذشتہ سال مئی سے رواں سال مارچ کے درمیان امریکی گوشت کی قیمتوں میں تقریباً 50 فیصد اضافہ ہوا اور ٹیرف لگنے کے بعد ان میں مزید اضافہ ہو گیا جس کے نتیجے میں یا تو سپلائی ختم ہو گئی یا قیمتیں گذشتہ سال کے مقابلے میں تقریباً دگنی ہو گئیں۔

آسٹریلیا اس خلا کو بھرنے کی کوشش کر رہا ہے، جس میں وہ بریسکٹ بھی فراہم کر رہا ہے جو 40 فیصد سستے ہیں۔ ہوم پلیٹ میں اس تبدیلی کو کامیابی ملی۔ مئی میں گاہک آسٹریلوی بیف ربز، بریسکٹ اور ساسیجز کھا رہے ہوں گے، جو ٹیکسس اور  جنوبی امریکی ریاستوں کی روایتی طرز پر دیر تک دھوئیں میں پکائیں جائیں گے۔

ڈی پلیٹ نے کہا: ’ہم نے چند ماہ تک اسے آزمایا اور ہمیں معلوم ہوا کہ حقیقتاً یہ بالکل ویسا ہی اچھا ہے اور ہمارے گاہک اس سے خاصے خوش ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا