پیکا آرڈیننس: حکومت چوہدری برادران یا عدالت کےدباؤ میں آسکتی ہے؟

میڈیا مالکان کے مطابق سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہیٰ نے انہیں حمایت کی یقینی دہانی کروائی ہے۔ چوہدری پرویز الہیٰ نے بعد ازاں فواد چوہدری سے رابطہ کیا جس کے بعد وفاقی وزیر نے کہا کہ حکومت پیکا ترمیم میں تبدیلی یا آرڈیننس واپس لینے کو تیار ہے۔

تین جون 2011 کو کراچی میں صحافی ایک مظاہرے کے دوران ۔ حکومت کے پیکا قانون میں ترامیم پر صحافیوں سمیت سول سوسائٹی  بھی شدید ردعمل دے رہے ہیں جن کا کہنا ہے کہ یہ قانون آزادی صحافت پر اثر انداز ہوا (اے ایف پی)

حکومت کی جانب سے پریوینشن آف الیکٹرونک کرائمز ایکٹ (پیکا) ترمیمی آرڈیننس جاری کیا گیا تو پہلے دن سے ہی اس کے خلاف صحافی تنظیموں، وکلا، سوشل میڈیا کارکنان، میڈیا مالکان اور اپوزیشن کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آیا۔

اس معاملے پر جب حکومت نے ردعمل کو اہمیت نہ دی تواسلام آباد ہائی کورٹ سمیت عدالتوں میں بھی اس اقدام کو آئین کے خلاف قرار دے کر چیلنج کیا گیا۔

میڈیا مالکان نے بھی حکومت کی جانب سے موثر جواب نہ ملنے پر سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الہی سے ملاقات کر کے انہیں پیکا ایکٹ پر تحفظات سے آگاہ کیا تو انہوں نے یقین دہانی کروائی کہ وہ اسے لاگو کرنے سے روکنے کے لیے اپنا سیاسی اثر ورسوخ استعمال کریں گے۔

چوہدری پرویز الہی کی جانب سے وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے رابطہ ہوا جس کے بعد انہوں نے (بدھ) کو نجی ٹی وی چینل پر انٹرویو میں یقین دہانی کروائی کہ حکومت پیکا آرڈیننس میں قابل اعتراض شقوں کو تبدیل یا اس ایکٹ کو واپس بھی لے سکتی ہے۔

وزیر اعظم عمران خان رواں ہفتے اس آرڈیننس کے اطلاق کو ناگزیر قرار دے چکے ہیں مگر اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اس کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیے اور اٹارنی جنرل کو وضاحت کے لیے نوٹس جاری کیا۔ اس معاملے پر 10مارچ کو دوبارہ سماعت ہونی ہے۔

لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت کو اسے واپس لینے کا خیال عدالتوں میں چیلنج کیے گئے اس آرڈیننس کے خلاف متوقع فیصلے یا اتحادی چوہدری برادران کے دباؤ پر آیا ہے۔

دوسرا سوال یہ ہے کہ میڈیا مالکان نے حکومت کی بجائے چوہدری پرویز الہی کے سامنے تحفظات کیوں رکھے۔

چوہدری پرویز الہی سے منگل کو پاکستان براڈ کاسٹرز ایسوسی ایشن، آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی، کونسل آف پاکستان نیوز پیپرایڈیٹرزاور ایسوسی ایشن آف الیکٹرانک میڈیا ایڈیٹرز اینڈ نیوز ڈائریکٹرز کے رہنماؤں نے اسمبلی چیمبر میں ملاقات کی۔

ملاقات میں موجود گروپ ایڈیٹر 92 نیوز کے ارشاد عارف نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے پہلے پاکستان میڈیا ڈویلپمنٹ اتھارٹی بنانے کا اعلان کیا جس کے خلاف صحافیوں نے احتجاج کیا تو حکومت نے وزیر مملکت برائے اطلاعات فرخ حبیب کی سربراہی میں میڈیا مالکان اور سرکاری افسروں پر مشتمل جوائنٹ ایکشن کمیٹی بنا دی۔

اس کمیٹی کے اجلاس جاری تھے ابھی کسی نتیجے پر نہیں پہنچے تھے کہ حکومت نے کمیٹی کو اعتماد میں لیے اور تحفظات دور کیے بغیر ہی پیکا ایکٹ میں ترمیم کر کے آرڈیننس جاری کردیا۔

انہوں نے کہا کہ جب حکومت نے ہماری بات نہیں سنی تو پھر ہم نے حکومتی اتحادیوں اور اپوزیشن رہنماؤں سے ملاقاتیں کی کیونکہ حکومت تو بات سننے کو تیار ہی نہیں تھی تو اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔

ارشاد عارف کے بقول میڈیا مالکان نے چوہدری پرویز الہیٰ سے پیکا آرڈیننس پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے اس معاملے پر ساتھ دینے کی درخواست کی۔

چوہدری پرویز الہیٰ نے میڈیا جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے مطالبات کی مکمل حمایت کی یقین دہانی کروائی اور میڈیا مالکان سے اتفاق کرتے ہوئے پیکا آرڈیننس میں ترمیم کو فوری طور پر منسوخ کرنے کا مطالبہ کیا۔

ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ پیکا آرڈیننس صحافی برادری اور پاکستان کے عوام کے ساتھ حکومت کا امتیازی سلوک ہے اور وہ اس معاملے پر حکومت سے بات کریں گے۔

اس کے بعد انہوں نے بدھ کو وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے رابطہ کر کے پیکا ایکٹ میں ترمیم کے بعد جاری آرڈیننس واپس لینے یا ترامیم تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا۔

چند گھنٹے بعد فواد چوہدری نے نجی ٹی وی کے ایک پروگرام اور صحافیوں سے بات کرتے ہوئے یقین دہانی کروائی کہ اس معاملے میں چوہدری پرویز الہیٰ ذمہ داری لے رہے ہیں، تو کیونکہ وہ حکومت کا حصہ ہیں اس لیے وہ ترمیم میں تبدیلی یا آرڈیننس واپس لینے کو تیار ہیں۔

پیکا آرڈیننس پر تحفظات اور حکومتی موقف

ارشاد عارف نے بتایا: ’ہم نے حکومت کے ساتھ بننے والی کمیٹی کے فورم پر تحفظات رکھے کہ پی ایم ڈی اے ہو یا پیکا ایکٹ ترامیمی آرڈیننس اس میں جھوٹی خبر(فیک نیوز) کی تشریح کا تعین ہونا چاہیے کہ سوشل میڈیا پر پھیلنے والے جھوٹ کے خلاف بنائی گئی پالیسی فیک نیوز کی شکایت پر کیسے لاگو ہو سکتی ہے۔‘

دوسرا یہ کہ پیکا ایکٹ میں نئی ترمیم سے ایف آئی اے یا پولیس کو یہ اختیارات دے دیے گئے کہ وہ خود ہی کسی بھی خبر کو جھوٹ سمجھ کر کارروائی کر سکتے ہیں اور اس پر جرمانہ اور گرفتاری کے بعد چھ ماہ تک ضمانت نہ ہونے کا قانون بنایا گیا ہے، جو آئینی طور پر درست نہیں۔

ان کا کہنا تھا:’اس طرح تو کسی پر بھی جھوٹی خبر کا الزم لگا کر گرفتار کیا جاسکتا ہے۔ اگر بعد میں معلوم ہو خبر ٹھیک تھی تو بلاوجہ کارروائی کا ذمہ دار کون ہوگا؟‘

ارشاد عارف نے کہا: ’ہمارا مطالبہ ہے کہ میڈیا سے متعلق قوانین پہلے سے موجود ہیں ہتک عزت کا قانون بھی ہے تو ان پر عمل درآمد یقینی بنایا جائے بجائے نئے قوانین بنانے کے، لیکن حکومت اس طرف آنے کو تیار نہیں۔ حکومت کو فیک نیوز کے نام پر آزادیِ صحافت سلب کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن احسن بھون نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پیکا ترمیمی ایکٹ بنیادی طور پر آئین پاکستان میں وضع کردہ ضوابط کے خلاف ہیں اور عدالت اس کی سماعت کر رہی ہے۔ ’جو معاملہ آئین کے خلاف ہوگا اس پر فیصلہ سنایا جائے گا۔‘

انہوں نے کہا کہ ویسے تو حکومت آرڈیننس کسی بھی وقت واپس لینے کا اختیار رکھتی ہے لیکن اس کے لیے انہیں تحریری طور پر عدالت میں بھی جواب داخل کروانا ہوگا۔

سابق وائس چیئرمین ہاکستان بار کونسل امجد شاہ نے کہا: ’حیران کن بات یہ ہے کہ حکومت ایسے متنازع قوانین بنا کیوں رہی ہے؟‘

ان کا مزید کہنا تھا: ’تاجروں کو مسائل ہوں تو وہ آرمی چیف سے ملتے ہیں، میڈیا کو مشکلات آئیں تو وہ حکومتی اتحادیوں یا اپوزیشن سے ملاقات کرنے پر مجبور ہوئے، وکلا کو کسی معاملے پر اعتراض ہو تو وہ بھی حکومت سے بات کرنے کی بجائے عدالتوں کی طرف دیکھتے ہیں۔ ایسے حالات میں حکمرانوں کو سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ لوگ ان پر اعتماد کیوں نہیں کر رہے؟‘

انہوں نے کہا کہ چند دن پہلے قوم سے خطاب میں وزیراعظم عمران خان نے بھی کہا کہ آزادی صحافت پر پابندی کی بے بنیاد باتیں پھیلائی جارہی ہیں، حکومت صرف پیکا قانون میں ترمیم کررہی ہے، فیک نیوز کے ذریعے وزیراعظم کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔

انہوں نے کہا: ’ایک صحافی نے لکھا کہ عمران خان کی بیوی گھر چھوڑ کر چلی گئی ہے، معاملہ عدالت میں گيا اور اب تک فیصلہ نہیں ہوا، وزیراعظم کے ساتھ انصاف نہیں ہورہا تو سوچیں عام لوگوں کے ساتھ کیا ہوتا ہو گا۔‘

واضع رہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا آرڈیننس کے خلاف درخواست کی  سماعت میں ریمارکس دیے کہا کہ یہاں تو قانون نافذ ہی ناقدین کے خلاف کیا جاتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’وزیر اعظم نے جو تقریر کی، لگتا ہے انہیں کسی نے صحیح طور پر نہیں بتایا کہ ہتک عزت کا قانون پیکا سے الگ بھی موجود ہے۔‘

عدالت نے دو دن پہلے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف لاہور ہائی کورٹ بار کے سابق صدر کی درخواست پر اٹارنی جنرل کو نوٹس جاری کردیا۔

عدالت نے درخواست کو پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف دیگر درخواستوں کے ساتھ یکجا کرنے کا حکم دیا اور  مزید سماعت 10 مارچ  تک ملتوی کردی۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان