پاکستان کی موجودہ سیاسی صورتحال میں پیر کو ایک نیا موڑ اس وقت آیا جب پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی رہنما اور سابق صوبائی وزیر علیم خان نے پی ٹی آئی کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کے گروپ میں شمولیت کا اعلان کر دیا۔
تحریک انصاف کے ناراض رہنما جہانگیر ترین کی رہائش گاہ پر پیر کو ایک اہم مشاورتی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں علیم خان سمیت ارکان صوبائی اسمبلی نے شرکت کی، جبکہ جہانگیر ترین لندن سے ویڈیو لنک پر شریک ہوئے۔
اس ملاقات میں وزیر زراعت نعمان لنگڑیال، صوبائی وزیر اجمل، عبدالحئی دستی، لالہ طاہر رندھاوا، عون چوہدری، خرم لغاری، چوہدری یاسین سوہل، میاں عبدالروف، سعید اکبر نوانی، زوار حسین وڑائچ، غلام رسول سنگا، بلال وڑائچ، قاسم لنگا اور میاں عمران جاوید شریک ہوئے تھے۔
اجلاس کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں علیم خان نے جہانگیر ترین گروپ میں شمولیت کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ تحریک عدم اعتماد آئی تو ’ہم سب مل کر فیصلہ کریں گے کہ ہمیں کیا کرنا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کی جدوجہد میں بہت سارے ساتھی عمران خان کے ساتھ تھے، اس جدوجہد میں جہانگیر ترین کا بہت اہم کردار ہے۔ انہوں نے دن رات پارٹی کے لیے محنت کی، پارٹی کے لیے اتنی محنت کرنے پر جہانگیر ترین کے مشکور ہیں، لیکن جہانگیر ترین سمیت سب کی قربانیاں بھلا دی گئیں۔
علیم خان کا کہنا تھا کہ ’سیاست دوستوں میں اضافے کا نام ہے، سیاست مشکل میں دوستوں کے ساتھ کھڑے ہونے کا نام ہے، میں نے خود کہا کہ آج کا اجلاس جہانگیر ترین کے گھر پر رکھیں، انہیں پیغام دینا چاہتے ہیں کہ آپ بھلے یہاں نہ ہوں ہم نے بھلایا نہیں، ہم سب کے لیے جہانگیر ترین قابل احترام ہیں۔‘
’پارٹی میں ان کا نمایاں چہرہ تھا، ان سمیت دیگر نے جتنی محنت کی انہیں کیوں نظرانداز کیا گیا معلوم نہیں، عمران خان عوام کی واحد امید تھے جس وجہ سے ان کا ساتھ دیا، جب حکومتیں بن جاتی ہیں تو کچھ اور ہی لوگ ارد گرد آجاتے ہیں، ہم سب نے جدوجہد کی ہے، دلی افسوس ہوتا ہے۔‘
علیم خان نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ چار کے قریب اراکین پنجاب اسمبلی اب تک ان سے ملاقات کر چکے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وہ باقی گروپس سے بھی گزارش کرتے ہیں کہ پارٹی کو بچانے کے لیے متحد ہوں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
علیم خان کا مزید کہنا تھا کہ ایک وزیر اعظم کے خلاف جو طاقتور ہو، جس کا پنجاب میں وزیر اعلیٰ بھی ہو، اس کے خلاف لاہور میں کھڑا ہونا آسان کام نہیں۔
’ہم نے وقت بہت مشکل سے گزارا، میری تکلیف ذاتی نہیں ہے۔ اس وقت سہولتیں وزیراعلیٰ کے پاس ہیں شاید میرے پاس اس سے زیادہ ہیں، جو گاڑیاں اور سرکاری جہاز وزیراعلیٰ استعمال کرتے ہیں میرے پاس اس سے اچھی گاڑیاں اور جہاز ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میں عمران کے ساتھ اس لیے نہیں تھا کہ مجھے وزیر اعلیٰ بننا تھا۔ میں ان کے ساتھ تھا کیونکہ عوام ان کی شکل میں واحد امید دیکھ رہے تھے۔‘
دوسری جانب علیم خان سے گورنر سندھ عمران اسماعیل نے بھی لاہور میں ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی ہے جس میں علیم خان نے انہیں تحفظات سے آگاہ کیا اور گروپ کی رائے بتائی۔
علیم خان سے ملاقات کے بعد گورنر سندھ عمران اسماعیل نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ علیم خان کے تحفظات تحریک انصاف کے حق میں ہیں۔
’ہم وزیراعظم کی ہدایت پر لاہور آئے ہیں۔ علیم خان آج بھی عمران خان کے ساتھی ہیں، وہ آج بھی عمران خان کے سپاہی ہیں۔‘
عمران اسماعیل کا کہنا تھا کہ علیم خان، جہانگیر ترین کے گروپ کو پی ٹی آئی پنجاب حکومت پر تحفظات ہیں۔ ’علیم خان کے تحفظات سے وزیر اعظم کو آگاہ کروں گا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’آخری فیصلہ وزیر اعظم عمران خان کا ہوگا کہ وہ کیا کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ دیرینہ دوست کے پاس مذاکرات کے لیے آنا پڑا مگر آئندہ 24 گھنٹے میں سب ایک پیج پر ہوں گے۔‘