پاکستان کی وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی جانب سے آٹا اور چینی بحران پر انکوائری رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد حکومت نے اس رپورٹ پر مزید تحقیقات کے لیے 24 اپریل تک کی ڈیڈ لائن دی ہے، لیکن اپوزیشن جماعت مسلم لیگ ن کو ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کی امید نہیں۔
ایف آئی اے کے ڈائریکٹر جنرل واجد ضیا کی جانب سے تیار کردہ انکوائری رپورٹ میں آٹا اور چینی بحران میں ملوث جن اہم شخصیات کے نام شامل ہیں، ان میں جہانگیر ترین، خسرو بختیار، سابق صوبائی وزیر خوراک سمیع اللہ چوہدری اور دیگر کے نام بتائے گئے تھے۔
چند روز قبل جب یہ انکوائری رپورٹ منظر عام پر آئی تو وفاقی کابینہ میں ردوبدل تو ضرور ہوا لیکن کسی کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ سمیع اللہ چوہدری سمیت محکمہ خوراک پنجاب کے دو افسران خود اپنے عہدوں سے دستبردار ہو گئے اور ساتھ ہی عبدالعلیم خان کو دوبارہ پنجاب میں صوبائی وزیر خوراک کے عہدے پر تعینات کردیا گیا۔ جہانگیر ترین کے خلاف بھی کوئی کارروائی سامنے نہ آسکی۔
ان حالات میں چہ مگوئیاں شروع ہوگئیں کہ نیب مقدمات کا سامنا کرنے والے علیم خان کو دوبارہ صوبائی وزیر خوراک کا عہدہ دینے سے تحقیقات پر فرق پڑے گا۔ دوسری جانب وزیر اعظم کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اس رپورٹ پر ذمہ داروں کا تعین کرکے 24 اپریل کو ملوث شخصیات کے خلاف کارروائی ہوگی۔
تاہم مسلم لیگ ن کے مرکزی ڈپٹی جنرل سیکرٹری عطا اللہ تارڈ نے حکومتی احتساب کے دعوؤں کو 'سیاسی چال' قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'رپورٹ سے ثابت ہوگیا کہ آٹے اور چینی کا بحران وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے پالیسیوں کی منظوری سے پیش آیا تو ذمہ داروں کو کون پکڑے گا؟ اپوزیشن رہنماؤں کو تو الزام لگنے کے ساتھ ہی گرفتار کر کے جیلوں میں بند کیا جا رہا ہے۔'
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عطا اللہ تارڈ نے کہا کہ 'وزیراعظم کی زیر صدارت ہونے والے اقتصادی تعاون کمیٹی (ای سی سی) اجلاس میں وفاقی سیکرٹری نے آگاہ بھی کیا کہ چینی برآمد نہیں ہوسکتی لیکن وزیر اعظم نے پھر بھی اس کی برآمد کی اجازت دے دی۔ ان اجلاسوں میں جہانگیر ترین بھی موجود رہے۔'
ان کا مزید کہنا تھا: 'اسی طرح پنجاب کے وزیر اعلیٰ اس لیے ذمہ دار ہیں کیونکہ سبسڈی کی منظوری انہوں نے کابینہ کی مشاورت کے بغیر ہی دے دی۔'
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عطا اللہ تارڑ نے کہا کہ 'جس طرح جہانگیر ترین میڈیا پر بیانات دے رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہوئی۔ دوسرا یہ کہ فرانزک آڈٹ کے کیا ٹی او آرز بنائے گئے کسی کو نہیں معلوم۔ اگر رپورٹ لیک نہ ہوتی تو کسی کو پتہ بھی نہیں چلنا تھا۔ ڈالرز کا ریٹ زیادہ ہونے اور سبسڈی ملنے پر چینی برآمد کرنے والوں نے کئی گنا پیسہ بنایا اور ملک میں بحران پیدا کردیا گیا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح معاملے کو لٹکانے کے لیے حیلے بہانے کیے جا رہے ہیں، انہیں یقین نہیں کہ کسی ذمہ دارکے خلاف کارروائی ہوگی۔ 'جہانگیر ترین کے خلاف اداروں نے تو کیا کارروائی کرنی ہے، پارٹی نے بھی کوئی نوٹس نہیں لیا۔'
انہوں نے مزید کہا کہ ایف آئی اے اور آڈیٹر جنرل کی جانب سے تحقیقات تو ہو رہی ہیں لیکن اس پر یقین نہیں کیا جاسکتا۔
علیم خان کے وزیر خوراک بننے سے تحقیقات پر کوئی اثر پڑنے کے حوالے سے سوال پر عطا اللہ تارڑ نے جواب دیا کہ 'گندم کی خریداری میں بدنظمی سامنے آچکی ہے۔ محکمہ خوراک کا ریکارڈ ایف آئی اے کے پاس موجود ہے۔ پہلی رپورٹ سے پتہ چل گیا کہ وزیر اعلیٰ ذمہ دار ہیں لیکن ملبہ ایک صوبائی وزیر اور دو افسروں پر ڈال دیا گیا جبکہ پہلےصوبہ بھر میں 90 ڈسٹرکٹ فوڈ کنٹرولرز کے تبادلے کس نے کیے؟ یہ سب حکمت عملی کے تحت آٹے کا بحران پیدا کیا گیا، جس سے کئی حکمران شخصیات نے پیسہ کمایا اور اب علیم خان کو صوبائی وزیر بنا دیا گیا ہے۔'
حکومتی موقف
آٹے اور چینی کے بحران سے متعلق موقف لینے کے لیے پی ٹی آئی رہنما جہانگیر ترین سے رابطہ کیا گیا لیکن انہوں نے فی الحال کوئی موقف یا انٹرویو دینے سے انکار کردیا۔
دوسری جانب حکومت پنجاب کی ترجمان مسرت جمشید کہتی ہیں کہ وزیر کوئی بھی ہو، اس بحران کی رپورٹ میں ذمہ داروں کے تعین پر سخت کارروائی ہوگی اور مثالی احتساب دیکھ کر دنیا حیران ہوجائے گی۔
جب مسرت جمشید چیمہ سے پوچھا گیا کہ اس بحران کے ذمہ داران کے خلاف کارروائی کس حد تک ممکن ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ 'ایف آئی اے کی رپورٹ آنے کے بعد ذمہ داروں کا تعین کرکے ان کے خلاف سخت کارروائی ضرور ہوگی اور اس سارے عمل کی نگرانی وزیر اعظم عمران خان خود کر رہے ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ 'فرانزک آڈٹ رپورٹ اور ذمہ داروں کے تعین پر جو کارروائی ہوگی اسے دیکھ کر دنیا حیران رہ جائے گی۔ پی ٹی آئی حکومت بلا امتیاز احتساب پر یقین رکھتی ہے اور 24 اپریل کو وزیر اعظم اپنے وعدے کے مطابق کارروائی کا حکم دیں گے۔'
مسرت جمشید نے مزید کہا کہ 'اس ملک کے ادارے، اپوزیشن اور میڈیا حکومتی کارروائی سے مطمئن ہوں گے۔ کوئی بھی ان تحقیقات پر اثر انداز نہیں ہوسکتا، جن پر الزامات ہیں وہ بھی اس بارے میں کوئی مداخلت نہیں کر سکتے۔'