یہ 18 سال پہلے کا قصہ ہے۔ میں نیسلے مِلک پیک کمپنی میں مِلک کولیکشن سُپر وائزر تھا اور بصیر پور میں ہوتا تھا۔ میرا کام گوالوں سے دودھ اکٹھا کرنا تھا اور اس مقصد کے لیے نیسلے والوں نے ہمیں زیرو میٹر موٹرسائیکلیں دی ہوئی تھیں، مفت پیٹرول الگ سے ملتا تھا۔
میرا ایک کولیگ ڈاکٹر وارث تھا۔ ہم گاؤں گاؤں پھرتے تھے، بستی بستی گھومتے تھے، نہروں، دریاؤں اور ندی نالوں کی پگڈنڈیوں سے رستے نکالتے ہوئے جاتے تھے اور چوروں کی طرح دُودھ کی بھِنک میں رہتے تھے۔ جہاں کہیں بھینس یا گائے کے وجود کی نشانی پاتے، وہیں پہنچ جاتے اور نیسلے کے لیے اُن سے دودھ کی خریداری کا سودا کرتے تھے، کسانوں کو مقامی مارکیٹ سے فی کلو ایک روپیہ زیادہ کا لالچ دے کر اُن سے خالص ترین دودھ اُٹھواتے تھے اور بعد میں نیسلے کمپنی اُسی دودھ کو 40 روپے فی کلو نفع سے شہریوں کو بیچتی تھی اور اُس کو منرلائز کرنے کے لیے اور خراب ہونے سے بچانے کے واسطے اُس میں بھانت بھانت کے کیمیکل بھی شامل کرتی تھی۔
یہ سرمایہ داری گناہ ثواب تو ایک طرف رہا، میں اصل قصے کی طرف آتا ہوں۔ ایک دن کا ذکر ہے، میں اور ڈاکٹر وارث اکٹھے دودھ کے شکار پر نکلے ہوئے تھے۔ ہم ایک نہر کے کنارے جا رہے تھے۔ یہ نہر حویلی لکھا کے قریب جا کر دریائے ستلج میں گرتی تھی اور اِس کا پانی بہت تیز اور کئی فُٹ گہرا تھا۔ نہر کے پانی کا شور اور دھڑ دھڑاہٹ دل کو دہلاتی تھی اور دیکھنے میں آنکھوں کا خوف بڑھاتی تھی۔ دونوں ایک ہی موٹر سائیکل پر سوار چلے جاتے تھے اور نہر کی گہرائی اور تیز رفتاری پر حیران ہوئے جاتے تھے۔ اچانک میں نے شیخی بگھاری، ’ڈاکٹر صاحب دیکھیے، اگر میں اِس نہر سے تیر کر دوسرے کنارے پر ہاتھ لگا کر وہاں سے واپس آجاؤں تو کیا دو گے؟‘
اُس نے فوراً جیب سے پانچ سو روپے کا نوٹ نکالا اور کہا، ’لو، یہ پانچ سو روپیہ یہاں کنارے پر رکھا ہے، تم نہر میں چھلانگ لگاؤ اور دوسرے کنارے کو ہاتھ لگا کر آؤ اور اسے اُٹھا لو۔ اگر یہ نہ کر سکو تو پانچ سو روپے میں تم سے وصول کروں گا۔‘
اب میں نے جوتے وہیں پھینکے، کُرتا اُتارا، شلوار کے پائنچے اُوپر کیے اور چھلانگ لگا دی، مگر نہر میں گرتے ہی ہاتھ پاؤں میرے اختیار سے باہر ہوگئے۔ پانی کا بہاؤ ایسا تیز تھا کہ کسی طرح کا بس نہ چلتا تھا۔ اتنی تیزی سے کھینچتا ہوا آگے لے گیا کہ میرا وجود اُس کے زور کے سامنے تنکے سے زیادہ ہلکا ہوگیا۔ ایک منٹ کی کوشش کے بعد جب میں نے دیکھا کہ اگر سیدھے رُخ تیرنے کی کوشش کی تو ڈوب جاؤں گا۔ فوراً پانی کے رُخ اپنے آپ کو چھوڑ دیا اور تھوڑا سا ترچھا ہو کر ہاتھ پاؤں چلانے لگا۔ اِس عمل میں دو چار غوطے بھی کھائے، مگر دل کو کڑا کیا کہ بھائی اب بھلائی اسی میں ہے کہ ہاتھ چلاتے رہو۔ اُس وقت پانچ سو روپیہ تو مجھے یاد نہ رہا، البتہ اس اژدھا نما پانی سے خلاصی کے لیے جتنی آیات اور جتنی منتیں تھیں میں نے تلاوت کر دیں۔
مزید پڑھیے: عربی گدھے، کھجوریں اور میں
اُدھر میں نے ہلکا سا شور ڈاکٹر وارث کا سُنا جو کسی کو مدد کے لیے پکار رہا تھا اور اُس کے بعد کچھ سنائی نہ دیا۔ خیر اس بہاؤ میں پانی مجھے قریب ایک کلومیٹر تک آگے لے گیا اور بالآخر دوسرے کنارے کو چھو لیا۔ اب واپس اُسی کنارے پر آنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ وہیں سے کسی طرح ہانپ کانپ کر باہر نکلا اور نہر کی پٹری پر ہی چت لیٹ گیا۔ ہاتھ پاؤں شل ہو چکے تھے، سانس پھولی ہوئی تھی۔ کافی دیر بے سُدھ پڑا رہا، سانس بحال کرتا رہا۔ پاؤں اور جسم ننگا تھا۔ محض ایک شلوار تھی اور وہ بھی سفید اور بدن اُس میں صاف نظر آتا تھا۔ دوسرے کنارے پر کانٹے دار جھاڑیاں اور بھکھٹرا بہت تھا۔ جولائی کی دھوپ میں دن کے 12 بجے تھے اور دوبارہ نہر میں کودنے کی ہمت مجھ میں نہیں تھی۔
اُٹھ کر کنارے کنارے واپس چل دیا، ڈاکٹر وارث کا کہیں دور تک وجود نظر نہ آتا تھا۔ قدم قدم پر کانٹوں سے الجھتا رہا۔ اللہ اللہ کر کے جب عین اُسی کنارے کے برابر آ گیا جہا ں شرط باندھی تھی، تو دیکھا کہ وہاں ڈاکٹر وارث موجود ہی نہیں تھا۔ میں نے دوسری طرف سے ہی کھڑے ہو کر دو چار آوازیں دیں مگر اُس کا کہیں اتا پتہ نہ تھا۔ صرف میرے کپڑے اُس طرف پڑے نظر آ رہے تھے۔ اب حیران کہ کیا کروں اور کپڑوں اور جوتوں تک کیسے پہنچوں؟ اول تو کوئی آس پاس آدمی نظر نہیں آتا تھا، اگر ہوتا بھی تو نہر کا پاٹ اتنا چوڑا تھا کہ وہ کپڑے اور جوتے میری طرف اُچھال نہیں سکتا تھا۔ ادھر ڈاکٹر وارث ڈر کے بھاگ گیا تھا، اُسے شبہ ہوا کہ میں ڈوب چکا ہوں اور میرے مرنے کا سارا وبال اُس کی گردن پر پڑے گا۔
یہ بھی پڑھیے: جاٹوں کا مفت گڑ اور دلِ بےرحم
میری سمجھ میں کچھ نہ آتا تھا کہ کیا کروں۔ نہر میں دوبارہ کودنے کا میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا اور پُل سات کلومیٹر آگے تھا۔ کافی دیر تو وہیں بیٹھا رہا۔ پھر پُل کی جانب چل پڑا۔ شام چار بجے 14 کلومیٹرکا چکر کاٹ کر دوبارہ اُس جگہ پہنچا جہاں شرط باندھی تھی اور کپڑے اور جوتے اُتارے تھے مگر اب وہ پانچ سو روپے سمیت جو ڈاکٹر نے جیب سے نکال کر رکھے تھے، وہاں موجود نہیں تھے۔ وہ سب چیزیں کوئی اللہ کا بندہ اُٹھا کر چمپت ہو چکا تھا۔ اِدھر میرا جسم دھوپ کی شدت سے جل رہا تھا اور پاؤں کانٹوں سے لہولہان ہو گئے تھے۔ یہ علاقہ شہر تو شہر، کسی قصبے سے بھی کوسوں دُور تھا۔ کوئی راہی پاندھی اگر گزرتا بھی تھا تو سائیکل پر یا گدھے پر اور وہ دُور ہی سے میری حالت دیکھ کر پاگل سمجھتا تھا اور رُکنے کا نام بھی نہ لیتا تھا۔
ناچار اُسی ننگی حالت میں دس کلومیٹر مزید چلا اور رات دس بجے ایک اڈے پر آیا جہاں سے چھوٹی کھٹارا بسیں بصیر پور کو جاتی تھیں۔ لوگ مجھے دیکھ کر ہنستے تھے۔ بسیں رات کے اِس سمے بند ہو چکی تھیں، کافی دیر وہیں ننگا کھڑا رہا کہ ایک ٹریکٹر والا بصیر پور کو جانے والا رُکا۔ میں نے اپنی سب بپتا اُسے کہی۔ اُس نے مجھے ٹریکٹر کے مڈگارڈ پر بٹھایا اور چل سو چل۔ سڑک کے کھڈے اور ٹریکٹر کے بے شاخے مڈگارڈوں نے وہ بھُرکس نکالا کہ الامان۔ جان ضیق میں آ گئی۔ وہ رات دو بجے مجھے لے کر واپس شہر پہنچا۔ جب کمپنی کے الاٹ شدہ گھر میں پہنچا جہاں ہم آٹھ دس ملازم کمپنی کے رہتے تھے، تو ہمارا خانساماں مجھے دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا، کہنے لگا، ’سر آپ زندہ ہیں؟ اور آپ کے کپڑے اور جوتے کہاں ہیں؟‘
میں نے کہا، ’وہ تو بعد میں بتاتا ہوں۔ پہلے یہ بتاؤ ڈاکٹر وارث کہاں ہے؟ اُس کی ایسی کی تیسی۔‘
وہ بولا، ’سر وہ کمپنی کے سب ملازموں کو ساتھ لے کر آپ کی لاش ڈھونڈنے نہر کی اُس فال پر پہنچے ہیں جہاں سے نہر دریا میں گرتی ہے۔‘
اُس وقت موبائل فون وغیرہ ہوتے نہیں تھے کہ اُنھیں فون کر کے واپس بلاتا۔ میں نے کہا، ’اچھا بھائی اب تُو سو جا اور مجھے بھی آرام سے سونے دے۔ صبح کو دیکھیں گے۔‘
اگلے دن جب ڈاکٹر وارث اور اُس کے ساتھی ناکام واپس لوٹے تو میں نے اُس کی وہ ایسی تیسی پھیری کہ کچھ نہ پوچھیں۔ اُس کے بعد تہیہ کیا کہ آئندہ شرط نہیں لگاؤں گا چاہے نہر تو ایک طرف، چار فٹ کا نالہ ہی کیوں نہ ہو۔
مزید پڑھیے: اگر ہم پکڑے جاتے تو شاعر کے بجائے چور ہوتے