سائنس دانوں نے امید ظاہر کی ہے کہ ڈیجیٹل آلات جیسا کہ ایمیزون پر بکنے والے الیکسا سپیکر جلد اس قابل ہو جائیں گے کہ یہ کسی شخص کو دل کا دورہ پڑنے کی صورت میں فوری طور پر پیرامیڈکس کو باخبر کر سکیں گے۔
تحقیق کاروں نے ایک ایسا صوتی آلہ بنانے کا دعویٰ کیا ہے جو دل کی ڈھرکن بند ہونے کی صورت میں سانس کی بے ترتیب آواز کی پہچان کر کے خودکار طریقے سے اس کی اطلاع ہسپتالوں کی ایمرجنسی سروس کو دے گا۔
یونیورسٹی آف واشنگٹن میں اس ٹیکنالوجی کی خالق ٹیم کا کہنا ہے کہ اس آلے کو سمارٹ سپیکر ڈیوائسز جیسا کہ ایمیزون ایکو یا گوگل ہوم سے منسلک کر کے کئی لوگوں کی زندگیوں کو بچایا جا سکے گا۔
دل کا دورہ پڑنے والے نصف افراد کی سانس اکھڑ جاتی ہے جس کی علامت اذیت ناک طور پر سانس لینے کی کوشش ہو سکتی ہے اس صورتحال میں کارڈیو پلمونری ریسسائیٹیشن کے عمل سے متاثرہ شخص کی جان بچانے کے مواقعے دوگنا ہوتے ہیں لیکن اس کے لیے کسی دوسرے شخص کا وہاں موجود ہونا ضروری ہے۔
سائنسی جریدے ’ڈیجیٹل میڈیسن‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق تحقیق کاروں کے اس آلے نے 97 فیصد آڈیو کلپس میں سانس لینے کی تکیف کو 20 فٹ کے فاصلے سے بھی پہچان لیا تھا۔
واشنگٹن یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن سے وابسطہ اسسٹنٹ پروفیسر اور اس تحقیق کے شریک مصنف جیکب سن شائن کا کہنا ہے: ’سانس لینے میں اس قسم کے مسائل اس وقت سامنے آتے ہیں جب ایک مریض میں آکسیجن کی سطح میں شدید کمی واقع ہو جائے۔‘
’یہ حلق سے نکلنے والے ہانپنے جیسے شور کی طرح ہے اور اس آواز کی انفرادیت سے دل کے دورے کا پتہ چلایا جا سکتا ہے۔‘
تحقیق کاروں نے سیٹل کی طبی سروسز کو موصول ہونے والی حقیقی ہنگامی کالوں میں سے 162 آڈیو کلپس جمع کیے جن میں مریضوں کو دل کے دورے کا سامنا تھا اور وہ اکھڑی ہوئی سانسیں لے رہے تھے۔
انہوں نے 2009 اور 2017 کے درمیان ریکارڈ کردہ آڈیو فائلز سے 2.5 سیکنڈ کے حصوں کو نکال کر 236 کلپس بنائے۔
ٹیم نے ان کلپس کی تین سمارٹ آلات، جن میں ایمیزون الیکسا، آئی فون 5S اور سام سنگ گلیکسی S4 ، پر ریکارڈنگ کی تاکہ اس ڈیٹا بیس کو مختلف مشینز کی تکنیک کے لیے استعمال کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونیورسٹی کے کمپیوٹر سائنس اور انجینئرنگ سکول سے وابسطہ ایسوسی ایٹ پروفیسر شیام گوولاکوٹا جو اس مطالعہ کے شریک مصنف بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کے پاس گھروں میں سمارٹ ڈیوائسز موجود ہیں اور یہ آلات حیرت انگیز صلاحیتیں رکھتے ہیں جس سے ہم حقیقی فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا: ’ہم ایک ایسے نظام کا تصور کررہے ہیں جو آپ کے بیڈروم میں بے ترتیب سانسوں کی نگرانی کے لیے مسلسل کام کر سکتا ہو اور ایسی ہنگامی صورتحال میں قریبی شخص کو انتباہ کرے تاکہ متاثرہ شخص کو سی پی آر فراہم کی جا سکے تاہم اگر پھر بھی کوئی جواب موصول نہ ہو تو یہ آلہ خود بخود 911 پر کال ڈائل کر کے ایمرجنسی طبی مدد طلب کر سکے۔‘
ان آلات کو مختلف فاصلوں اور مختلف آوازوں (جیسا کہ پالتو جانوروں، ٹریفک اور ایئر کنڈیشن کے شور) کے ساتھ ٹیسٹ کیا گیا تھا تاکہ ان کو مختلف صورتحال اور اردگرد کے ماحول سے ہم آہنگ بنایا سا سکے۔
منفی ڈیٹا سیٹ کے لئے ٹیم نے نیند کے مطالعے کے دوران جمع کیے گئے 83 گھنٹوں کے آڈیو کا استعمال کیا جس سے 7،305 صوتی نمونے حاصل کیے گئے۔ یہ کلپس ان عام شور پر مشتمل تھے جو لوگ عموماً نیند کے دوران پیدا کرتے ہیں جیسا کہ خراٹے یا سوتے میں سانس رکنے کا عمل۔
یہ نظام اتنا درست تھا کہ اس کے الگورتھم نے صرف 0.14 فیصد بار سانس لینے کی آواز کی غلط درجہ بندی کی۔
مطالعہ میں کام کرنے والے طالب علم جسٹن چین نے کہا کہ ’ہم کسی بھی شخص کے قریبی رشتہ دار یا ہنگامی سروس کو غیر ضروری طور پر ایمرجنسی پیغام نہیں بھیجنا چاہتے لہذا یہ ضروری تھا کہ ہم اس کی غلط شرح کو کم کریں۔‘
محققین کا خیال ہے کہ آلے کو غیر مُتحرک سمارٹ سپیکر یا سمارٹ فون پر اس وقت فعال کر سکتے ہیں جبکہ لوگ سو رہے ہوتے ہیں۔
تحقیقاتی ٹیم اس ٹیکنالوجی کو یونیورسٹی آف واشنگٹن سے متعلقہ کمپنی ’ساؤنڈ لائف سائنسز‘ کے ذریعے تجارتی پیمانے پر فروخت کرنے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔