12 مارچ 2018 سینیٹ کا پورا ایوان حاصل بزنجو کی آواز سے گونج رہا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی بظاہر اپنی جانب سے منتخب کردہ سینیٹ چیئرمین صادق سنجرانی کے انتخاب پر ڈیسک بجا رہی تھی، وہیں مرحوم حاصل بزنجو اسے ’جمہوریت کا قتل‘ قرار دے رہے تھے اور ہاتھ باندھ کر اقتدار میں موجود سیاسی رہنماؤں سے اپیل کر رہے تھے کہ خدارا اس ملک کو جمہوریت کی ڈگر پر چلنے دیا جائے اور بلوچستان کا نام لے کر اس پارلیمنٹ کو گرانے کی کوشش نہ کی جائے۔
اس وقت ملک کے سیاسی حالات مجموعی طور پر انتہائی پیچیدگیوں اور مسائل کا شکار ہیں۔ ایک جانب تحریک عدم اعتماد اور دوسری جانب غیر جمہوری رویے ملک میں موجود معاشی مسائل کو یکسر پس پشت رکھے ہوئے ہیں۔ اس وقت ملکی سیاست میں اہم ترین موضوع ’لوٹا کریسی‘ ہے۔ ہر طرف لفظ ’لوٹا‘ آزادانہ طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اگرچہ یہ مکمل طور پر غیر پارلیمانی لفظ ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق جہاں ملک کو غیر جمہوری طاقتوں نے پنپنے نہیں دیا ہے وہاں ملک کو منحرف اراکین سے بھی نقصان پہنچا، لیکن بلوچستان میں 2018 کے الیکشن میں صورت حال مزید حیرانی کا باعث بنی جب منحرف اراکین نے پارٹی بدلنے کی بجائے ایک نئی پارٹی بنانے کا اعلان کر دیا۔
25 جولائی کو بلوچستان میں عام انتخابات میں بلوچستان کی کسی بھی سیاسی جماعت نے کوئی واضح برتری حاصل نہیں کی۔ یہ سب بلوچستان میں کچھ نیا نہیں تھا۔ یہاں اکثر مخلوط حکومتیں بنتی رہی ہیں۔ قوم پرست جماعت بی این پی مینگل اور مذہبی جماعت جے یو آئی ف ایڑی چوٹی کا زور لگا رہی تھیں لیکن صوبے میں وزارت کی کرسی ایک نومولود سیاسی جماعت لے اڑتی ہے۔
لفظ لوٹا اس جماعت سے منتخب ہونے والے امیدواروں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا رہا جس میں بہت سے امیدوار مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق سے شامل ہوئے۔ بظاہر واضح اکثریت نہ ہونے کے باوجود آزاد امیدواروں، بی این پی عوامی، ہزارہ ڈیموکریٹک الائنس، تحریک انصاف اور دیگر جماعتوں سے اتحاد کر کے جام کمال نہ صرف پارٹی کے صدر منتخب ہو جاتے ہیں بلکہ وزارت کی کرسی کے اہل بھی قرار دیے جاتے ہیں۔
پارٹی اتنی آناً فاناً بنتی ہے کہ اس کے نام کا اعلان ’بلوچستان عوامی پارٹی‘ (باپ) پہلے کر دیا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ منشور بعد میں پیش کیا جائے گا۔
29 مارچ 2018 کو پارٹی کے وجود کا اعلان کرتے ہوئے سینیٹر انوار کاکڑ اسے بلوچستان کا تاریخی دن قرار دیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ یہ بھی پیش گوئی کرتے ہیں کہ یہ جماعت ایک ایسا سیاسی گلدستہ ثابت ہو گی جس میں میر غوث بخش بزنجو، خان آف قلات اور نواب خیر بخش مری سے جڑے ہوئے لوگ شامل ہوں گے۔
باپ ایک ایسی پارٹی ہے جس کی جڑیں زمین کے بجائے آسمان کی جانب ہیں تو آپ خود ہی سوچیں کہ ایسا درخت کیسے پھل دار ہو گا؟
بہرحال یہ گلدستہ اس وقت بکھرنے لگتا ہے جب جماعت میں شامل اراکین کے پارٹی صدر اور سابق وزیراعلیٰ بلوچستان سے اختلافات شدت اختیار کر لیتے ہیں اور یہ اختلافات اس قدر بڑھ جاتے ہیں کہ جام کمال اپنے عہدے سے استعفیٰ دینے پر مجبور ہو جاتے ہیں (یاد رہے کہ جام کمال کے خلاف بلوچستان اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تھی)۔
اس کے بعد باپ پارٹی میں مائنس جام کمال کے سب سے متحرک امیدوار قدوس بزنجو بلوچستان کے نئے وزیراعلیٰ کے طور پر منتخب ہو جاتے ہیں۔
بڑے بزرگ کہہ گئے ہیں کہ عجلت میں کیے گئے کام اکثر اوقات پریشانی کا باعث بن جاتے ہیں۔ وہی کچھ باپ پارٹی کے ساتھ ہوا۔ گو کہ جام کمال کی حکومت ہٹانے میں اپوزیشن جماعتیں خاص طور پر بی این پی مینگل کا خاص کردار رہا ہے۔
اس سلسلے میں بی این پی مینگل سے ایم پی اے ثنا بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے اظہار گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’بلوچستان کو کنٹرول کرنے کے لیے ایسی حکومتوں کا قیام لازم ہو جاتا ہے جو بلوچستان کو اپنے طور پر چلانا چاہتے ہیں اور وہ اس کے لیے ایک مکمل انجینیئرنگ کرتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا: ’یہ ہم نے ماضی میں بھی دیکھا اور شاید آگے بھی ہوتا رہے گا۔ باپ ایک ایسی پارٹی ہے جس کی جڑیں زمین کے بجائے آسمان کی جانب ہیں تو آپ خود ہی سوچیں کہ ایسا درخت کیسے پھل دار ہو گا؟‘
ہمارے اس سوال پر کے جام حکومت اور قدوس حکومت میں آپ کیا فرق دیکھ رہے ہیں، ثنا بلوچ نے بتایا کہ ہم نے جام حکومت کے خاتمے کے لیے ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ جام کمال نے جعلی سکیموں کا نہ صرف جال بچھایا ہوا تھا بلکہ ان کا خاص ٹارگٹ اپوزیشن جماعتیں تھیں۔ اپنی پسندیدہ شخصیات کو ٹھیکے بانٹنا اور صرف پاور پوائنٹ کی پریزنٹیشن کے ذریعے حکومت چلانے کے علاوہ اور کچھ بھی نہیں تھا۔ ہم عوامی مسائل پر اسمبلی کے فلور پر مسلسل آواز اٹھاتے رہے تھے لیکن ہماری کوئی شنوائی نہیں ہوتی تھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا: ’نئے وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کے آنے کے بعد ہمارے چند مسائل جس کی ہم نشاندہی کرتے آئے ہیں ان پر کام کیا گیا جیسے کہ گلوبل ٹیچرز کی بحالی، چیک پوسٹوں پر عام عوام کو تنگ کرنا، پی ڈی اے یا لوکل گورنمنٹ کے ملازموں کی تنخواہوں کی بحالی شامل ہیں، مگر اب بھی دیگر کئی ایسے مسائل ہیں جو بلوچستان کے بڑے مسائل میں شمار کیے جاتے ہیں گو کہ قدوس حکومت کو چند ماہ ہی ہوئے ہیں کہ وہ مزید اپنی کارکردگی پیش کر سکیں، لیکن ہماری جماعت بلوچستان کے مسائل کے حل کے لیے بھرپور اور ایک موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرے گی۔‘
اس کے برعکس بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی شہزادہ ذوالفقار موجودہ صوبائی حکومت کے لیے مختلف رائے رکھتے ہیں۔ ان کے مطابق: ’موجودہ صوبائی حکومت انتظامی طور پر ایک مفلوج حکومت ہے۔ ’آج چیف منسٹر ہاﺅس میں ایک پرنسل سیکریٹری بھی موجود نہیں عام عوام تو ایک طرف وزرا خود پریشان رہتے ہیں کہ ہم اپنی فائلیں لے کر کس سے ملاقات کریں؟‘
شہزادہ ذوالفقار کے مطابق وہ ایک بار پھر باپ پارٹی میں تبدیلی کی ہوا دیکھ رہے ہیں۔ ان کے مطابق: ’اگر بلوچستان حکومت اپنی مدت پوری کرتی ہے تو انہیں لگتا ہے کہ باپ پارٹی کے چند اراکین ایک بار پھر جام کمال کے اردگر نظر آ رہے ہیں۔ ممکن ہے کہ آنے والے وقتوں میں اس کرسی میں کوئی اور براجمان ہو جسے جام گروپ کی مکمل حمایت حاصل ہو۔
’چونکہ یہ ایک نظریاتی جماعت نہیں ہے اسی وجہ سے اس کا ہر رکن خود کو وزیر اعلی بنانے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔ باپ پارٹی کے جام کمال ہوں یا قدوس بزنجو یہ وہ لیڈران ہیں جو اقتدار میں آنے کے بعد اپنے حلقے میں جانا بھی پسند نہیں کرتے۔ پورا بلوچستان تو ایک طرف جہاں سے انہوں نے الیکشن جیتا ہے (اب یہ ایک علیحدہ بحث ہو گی کہ 330 ووٹوں کے ذریعے سپیکر صوبائی اسمبلی اور پھر دو مرتبہ وزیراعلیٰ جیسے منصب کے اہل قرار دیے جاتے ہیں) پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی ہو، قوم پرست بی این پی مینگل یا دیگر بلوچستان کی جماعتیں سب نے موجودہ حکومتی جماعت کو صاف لفظوں میں مقتدرہ قوتوں کی جماعت قرار دیا۔ لیکن سوال یہ ہے کہ یہ سیاسی جماعت بلوچستان میں اسٹیبشلمنٹ کی پالیسیوں کو آگے لے جانے میں کامیاب ہو پائے گی؟
آج پھر ہمارے کانوں میں میر حاصل بزنجو کی سینیٹ کے ایوان سے خطاب کی آواز گونج رہی ہے کہ خدارا اس ملک میں جمہوری حکومتوں کو کام کرنے دیا جائے ورنہ یہ ایوان صرف ایک عمارت کے علاوہ کچھ نہیں رہ جائے گی اور سارا سسٹم مٹی ہو جائے گا۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔