کیا وزیراعلیٰ بلوچستان دوبارہ تبدیل ہوں گے؟

بلوچستان کے سابق وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ظہور بلیدی، جنہوں نے سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا تھا، اب وہ دوبارہ جام کمال کے کیمپ میں شامل ہوگئے ہیں۔ 

بلوچستان کے سابق وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ ظہور بلیدی، جنہوں نے چھ ماہ قبل سیاسی بحران کے دوران عبدالقدوس بزنجو کا ساتھ دے کر اس وقت کے وزیراعلیٰ جام کمال کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا، نے اب وزیراعلیٰ قدوس بزنجو کے خلاف ہی تحریک عدم اعتماد لانے کا اعلان کیا ہے۔

اس بات کا اعلان ظہور بلیدی نے ٹوئٹر پر کرتے ہوئے کہا کہ ’بلوچستان میں تباہ کن طرز حکومت کے پیش نظر بلوچستان عوامی پارٹی کے مرکزی اور صوبائی قائدین، اراکین سینٹ، صوبائی و قومی اسمبلی اور اتحادیوں کی مشاورت سے قدوس بزنجو کی بدعنوانی اور نااہل حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے گی۔‘

ظہور بلیدی نے جام کمال کے خلاف تحریک میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور اب وہ دوبارہ جام کمال کے کیمپ میں شامل ہوگئے ہیں۔ 

دوسری جانب سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نہ صرف متحرک ہوگئے ہیں بلکہ انہوں نے وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہونے کے بعد اسلام آباد میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔

جام کمال نے اپنی حالیہ پریس کانفرنسوں کے دوران مطالبہ کر چکے ہیں کہ ’وفاق میں بلوچستان کے ارکان اسمبلی کو بھی اتحادی کی نظر سے دیکھا جائے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’چیئرمین سیںیٹ صادق سنجرانی کے انتخاب اور اعتماد کے ووٹ میں ہم نے ساتھ دیا۔ ہم فی سبیل اللہ سیاست نہیں کر رہے ہیں۔‘

جام کمال نے مزید کہا کہ ’وزیراعظم عمران خان شاید کچھ کرنا چاہتے ہیں، لیکن بعض لوگ بلوچستان عوامی پارٹی کو نہیں چلنے دینا چاہتے۔ ہمارے لوگوں کے مطالبات بغیر احتجاج کے پورے کرنے چاہییں۔‘

یاد رہے کہ جام کمال سے ملنے اور قدوس بزنجو سے اختلافات کے باعث ظہور بلیدی سے چند روز قبل وزارت پلاننگ اینڈ ڈویلمپنٹ کا قلمدان واپس لے لیا گیا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسلام آباد میں سیاسی ہلچل اور بلوچستان کے سیاسی امور پر نظر رکھنے والے صحافی عثمان خان سمجھتے ہیں کہ ’بلوچستان عوامی پارٹی ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہ رہی ہے۔‘

عثمان خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’چونکہ اس وقت وزیراعظم عمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد جمع ہوچکی ہے تو جام کمال اور ان کا گروپ موقعے کا فائدہ اٹھا کر حمایت کی صورت میں وزیراعظم سے اپنے مطالبات منواسکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’وفاق میں جام کمال کے گروپ کو وزیر مملکت کا عہدہ مل سکتا ہے اور وہ تحریک عدم اعتماد کے خلاف ہی ووٹ کریں گے، تاہم وہ سیاسی دباؤ بلوچستان کے حوالے سے ڈال رہے ہیں۔‘

عثمان خان نے مزید بتایا کہ ’قومی اسمبلی میں بلوچستان عوامی پارٹی کے پانچ ارکان ہیں، جو اس وقت دونوں طرف سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں اور وفاق میں کوئی حصہ لینے کے علاوہ صوبے میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی بھی ان کے منصوبے کا حصہ ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’صورت حال اس وقت کچھ واضح ہوجائے گی، جب ان کے گروپ کی وزیراعظم سے ملاقات ہوگی اور اس میں جو کچھ سامنے آئے گا وہ اہمیت کا حامل ہوگا۔‘

 دوسری جانب بلوچستان کے سیاسی معاملات اور تبدیلیوں پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی بلال ڈار سمجھتے ہیں کہ بلوچستان عوامی پارٹی، جو دو دھڑوں میں بٹ چکی ہے، کا ایک حصہ وزیراعظم کے حق میں اور دوسرا مخالفت میں جاسکتا ہے۔ 

بلال ڈار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ اگر مرکز میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو دوسری تبدیلی بلوچستان میں آسکتی ہے۔ 

انہوں نے مزید کہا: ’تبدیلی پورے ملک میں آتی ہوئی نظر آرہی ہے، تاہم مرکز کے بعد پنجاب، چیئرمین سینیٹ اور بلوچستان میں تبدیلی کے امکانات موجود ہیں۔‘

دوسری جانب بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے رہنماؤں ملک ولی کاکڑ اور دیگر نے کوئٹہ میں گذشتہ روز پریس کانفرنس کرتے ہوئے صوبائی حکومت کو نااہل قرار دیا۔ 

ملک ولی کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’موجودہ دور حکومت میں بھی جام کمال کے دور کی باتیں دہرائی جارہی ہیں۔ صوبے میں عبدالقدوس بزنجو کی حکومت مکمل ناکام ہوچکی ہے اور امن وامان کی صورتحال مخدوش، اقربا پروری اور ون مین شو جاری ہے۔‘

سابق وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے بھی بلوچستان نیشنل پارٹی کے رہنماؤں کی پریس کانفرنس کی ویڈیو ٹوئٹر پر شیئر کرتے ہوئے لکھا: ’اللہ کی قدرت۔‘

یاد رہے کہ جام کمال کے خلاف تحریک عدم لانے کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی اور قدوس بزنجو کی حمایت بلوچستان نیشنل پارٹی نے بھی کی تھی، جو اب انہیں بھی ’نااہل‘ قرار دے رہی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست