پاکستان میں وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی قرار داد جمع کرانے کے بعد ناراض بلوچستان عوامی پارٹی ( باپ) نے خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف حکومت سے اپنی راہیں جدا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
خیبر پختونخوا حکومت سے علیحدگی ملک میں جاری سیاسی ہلچل میں اس لیے اہم سمجھی جا رہی ہے کہ اب تک مرکز سمیت دیگر صوبوں میں پی ٹی آئی حکومت سے کسی اتحادی جماعت نے علیحدگی اختیار نہیں کی ہے۔
پشاور سے نامہ نگار اظہار اللہ کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی اس ساری صورت حال میں پہلی جماعت ہے جس نے باقاعدہ علیحدہ ہونے کا اعلان کیا ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے خیبر پختونخوا میں پارلیمانی رہنما نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’خیبر پختونخوا میں حکومت سے علیحدگی کا اعلان کرتے ہیں اور جلد ہی قومی اسمبلی، سینیٹ اور بلوچستان میں بھی حکومت سے علیحدگی کا اعلان کریں گے۔‘
’ہمارے ساتھ پی ٹی آئی حکومت نا انصافی کر رہی ہے اور ہمیں فنڈز بھی نہیں دیے جا رہے۔‘
تاہم مبصرین کے خیال میں بلوچستان عوامی پارٹی کی خیبر پختونخوا حکومت سے علیحدگی کا صوبائی حکومت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم اگر مرکز میں علیحدگی کا اعلان کیا جاتا ہے، تو وہ پی ٹی آئی کے لیے دھچکا ثابت ہو سکتا ہے۔
یاد رہے کہ بلوچستان عوامی پارٹی کی خیبر پختونخوا اسمبلی میں مجموعی طور چار نشستیں ہیں۔
طویل عرصے سے خیبر پختونخوا اسمبلی کو کوور کرنے والے صحافی لحاظ علی نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’خیبرپختونخوا میں بلوچستان عوامی پارٹی کے سٹرکچر اور بلوچستان اور مرکز میں موجود جماعت کے سٹرکچر میں فرق ہے۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’مرکز اور بلوچستان میں اراکین بلوچستان عوامی پارٹی کی سیٹوں پر اسمبلیوں میں گئے ہیں لیکن خیبر پختونخوا میں الحاج شاہ جی گل اور ان کے بیٹے نے مہمند سے تعلق رکھنے والے ایک رکن کے ساتھ مل کر بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاکہ سینیٹ سیٹ میں ان کو فائدہ مل سکے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لحاظ علی نے بتایا ’شاہ جی گل پہلے سے بلوچستان عوامی پارٹی میں نہیں ہیں بلکہ اب تو انہوں نے اپنی سیاسی جماعت بھی رجسٹرڈ کی ہے، تو یہاں پر ’باپ‘ کی باقاعدہ تنظیم سازی بھی نہیں ہے۔ پی ٹی آئی کے پاس خیبر پختونخوا میں واضح اکثریت موجود ہے تو بلوچستان عوامی پارٹی کی علیحدگی صوبائی حکومت کے لیے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔‘
انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کے پی ٹی آئی کے ساتھ معاملات پر کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں ’باپ‘ کے اراکین پہلے سے پی ٹی آئی کے ساتھ اتنے اچھے نہیں تھے اور پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی نے کچھ عرصہ پہلے کہہ بھی دیا تھا کہ بلوچستان عوامی پارٹی اگر ان کے ساتھ اتحادی ہے تو رہے ورنہ ان کو کسی اتحادی کی ضرورت نہیں ہے۔
بلوچستان عوام پارٹی کے موجود اراکین قبائلی اضلاع کی ضم ہونے کے بعد آزاد حیثیت سے لڑنے اور جیتنے والے اراکین نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی۔
بلوچستان میں ’باپ‘ کی بنیاد 2018 میں رکھی گئی تھی، جس نے 25 جولائی 2018 کے عام انتخابات میں بلوچستان میں 24 نشستوں پر کامیابی کے بعد وہاں حکومت بنائی اور قومی اسمبلی کی پانچ نشستوں پر بھی کامیابی حاصل کی۔
قبائلی اضلاع سے صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں کامیاب ہونے والے ضلع خیبر کے دو آزاد امیداور اور ضلع مہمند سے کامیاب ایک امیدوار اس پارٹی میں شامل ہوگئے تھے اور تین اراکین کی بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت سے ان کو ایک خواتین کی خصوصی نشست بھی مل گئی تھی۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے صوبائی اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر بلاول آفریدی نے بلوچستان عوامی پارٹی میں شمولیت کے بعد انڈپینڈنٹ اردوکو بتایا تھا کہ ’باپ‘ کے حوالے سے جو لوگ کہتے ہیں کہ اس پارٹی کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے، وہ لوگ ماضی میں مسلم لیگ ن اور اب پی ٹی آئی پر بھی الزام لگاتے ہیں کہ ان کو اسٹیبلشمنٹ کی سپورٹ حاصل ہے، تو یہ کوئی ٹھوس تنقید نہیں ہے اور نہ ہی اس میں کوئی سچائی ہے۔
بلوچستان عوامی پارٹی کے خیبر پختونخوا میں پارلیمانی لیڈر بلاول آفریدی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پی ٹی آئی سے اتحاد ختم ہونے کی ایک وجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی نے جو وعدے کیے تھے، وہ پورے نہیں کیے۔‘
بلاول نے بتایا کہ پی ٹی آئی نے ’ہمیں صوبے میں نظر انداز کیا تھا اور قبائلی اضلاع کے حوالے سے کسی بھی میٹنگ یا وہاں ترقیاتی کاموں کے حوالے سے ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’پی ٹی آئی نے قبائلی اضلاع کے لیے این ایف سی کے 110 ارب دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن وہ نہیں دیے گئے۔ قبائلی اضلاع میں دو تین بندوں کے مشورے سے فنڈز لگائے جاتے ہیں اور ہمیں اعتماد میں نہیں لیا جاتا۔‘
’آنے والے وقت میں ہم وہ فیصلے کریں گے جو خیبر پختونخوا کے بہتر مفاد میں ہوں گے اور آنے والے وقت میں مزید فیصلے بھی کریں گے۔‘
ادھر کوئٹہ سے نامہ نگار ہزار بلوچ کے مطابق خیرپختونخوا حکومت میں پاکستان تحریک اںصاف کے اتحاد سے علیحدگی کے اعلان کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر ظہور بلیدی سے رابطہ کر کے صوبے میں پاکستان تحریک انصاف سے اتحاد کے مستقبل کے حوالے سے جب سوال کیا گیا تو انہوں نے اس پر کوئی رائے دینے سے معذرت کر لی۔
بلوچستان عوامی پارٹی جس کے سینیٹ میں چار آزاد سنیٹرز کے ساتھ تعداد 12 ہے۔ اسی طرح قومی اسمبلی میں اس کے پانچ ارکان ہیں اور صوبہ بلوچستان میں اس کی حکومت ہے۔
اس وقت بلوچستان عوامی پارٹی بظاہر دو دھڑوں میں بھٹی ہوئی ہے جس میں ایک دھڑا سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے ساتھ ہے جبکہ دوسرا وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کے ساتھ ہے۔
جماعت میں اختلافات کے بعد سابق وزیراعلیٰ جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے میں پیش پیش رہنے والے ظہور بلیدی وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو سے اختلافات کے باعث دوبارہ جام کمال کے پاس پہنچ گئے ہیں۔ دوسری جانب اسلام آباد میں اس جماعت کے کئی رہنما حکومت سے ناراض ناراض بھی دکھائی دیتے ہیں۔
دوسری جانب وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو نے ظہور بلیدی کو وزیر پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ کے عہدے سے بھی ہٹا دیا ہے۔
وزیراعلیٰ عبدالقدوس کا دھڑا وفاق میں پی ٹی آئی کی حمایتی اور جام کمال اور ان کے ساتھی وزیراعظم عمران خان سے ناراض نظر آتے ہیں، جس کا اظہار وہ مختلف فورمز پر کر رہے ہیں۔