مریخ کے رازوں کی دریافت کی غرض سے بھیجے جانے والے امریکی ادارے ناسا کے خلائی روبوٹ نے مریخ کے پہاڑوں میں موجود ایک ’پر اسرار روشنی‘کے مناظر کو کیمرے میں محفوظ کیا ہے۔
ناسا کی جانب سے جاری کی جانے والی بلیک اینڈ وائٹ تصاویر میں صحرائی علاقے کی پشت پر موجود پہاڑی سلسلے میں واقع ایک اونچی پہاڑی کے سامنے سفید رنگ کے ہالے کو دیکھا جا سکتا ہے جو کافی دور سے بھی واضح نظر آرہا ہے۔ ناسا کی جانب سے اس سلسلے میں کی جانے والی تحقیق کے بعد اس بات کا اعتراف کیا گیا ہے کہ ایسا اس سے پہلے بھی مشاہدے میں آیا ہے۔
یہ تصویر 16 جون کو لی گئی، تاہم سازشی کہانیاں گھڑنے والوں کے مطابق یہ سرخ سیارے پر خلائی مخلوق کی موجودگی کا ثبوت ہے۔ لیکن دیکھنے میں یہ کاسمک شعاع، کیمرہ لینز پر پڑنے والی یا چٹانوں سے منعکس ہونے والی سورج کی روشنی محسوس ہو رہی ہے۔
ناسا کی جانب سے بھیجی جانی والی خلائی گاڑی ’کیوروسیٹی‘ 2012 میں مریخ کی سطح پر اتاری گئی تھی۔ اس میں 17 کیمرے موجود ہیں۔ تب سے ہی یہ مریخ کی سطح پر سفر کر رہی ہے اور اب تک وسیع پیمانے پر معلومات کے ساتھ ساتھ تصاویر کا بڑا ذخیرہ بھی زمین پر واپس بھیج چکی ہے۔ ان میں سے کچھ تصاویر میں غیر معمولی روشنیاں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
کیوروسیٹی پر بلندی پر نصب 2 نیویگیشن کیمرے بھی لگے ہوئے ہیں جو دو آنکھوں کی طرح کام کرتے ہیں۔ ان کیمروں سے مریخ کی سطح کو بہتر انداز میں جانچنے کے لیے بلیک اینڈ وائٹ تھری ڈی تصاویر بھی لی جا سکتی ہیں جو 45 ڈگری کے زاویے سے لی جاتی ہیں۔ ان تصاویر کی مدد سے زمین پر موجود سائنسدان مزید تفصیلات اکٹھی کرتے ہیں۔
حالیہ تصویر دائیں نیویگیشن کیمرے سے کھینچی گئی ہے، لیکن بد قسمتی سے بایاں کیمرا اُس وقت اس سمت میں نہیں دیکھ رہا تھا۔ اسی وقت میں لی گئی باقی تصاویر میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بایاں کیمرا اس وقت ’سپیس سیلفی‘ لینے میں مصروف تھا جس میں روبوٹ کے مختلف حصوں کی چٹانوں پر موجودگی اور مریخ کی سطح پر پڑی گرد کو دیکھا جا سکتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان روشنیوں کا ظاہر اور غائب ہونا چند ساعتوں کی بات تھی۔ چند لمحات پہلے اور بعد میں لی گئی تصاویر میں ان پراسرار روشنیوں کو نہیں دیکھا جا سکتا۔
2014 میں جب ایسی ہی ایک تصویر خبروں کی زینت بنی تھی تو لوگوں کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ ’خلائی مخلوق کے جھونپڑے میں موجود روشنی‘ ہے۔
تاہم کیوروسٹی کی تخلیق کار ٹیم کے سربراہ جسٹن ماکی نے فوری طور پر ان مفروضوں کی تردید کی تھی۔
وہ کہتے ہیں: ’ کیوروسٹی سے موصول ہونے والی ہزاروں تصویروں میں ہم تقریباً ہر ہفتے ہی ان روشنیوں کو دیکھتے ہیں۔‘
ان کے مطابق ان روشنیوں کی سب سے قابل فہم وجہ کاسمک شعاعوں کی موجودگی یا چٹانوں سے منعکس ہونے والی سورج کی روشنی ہو سکتی ہے۔ فضا میں جوہری ذرات کی موجودگی کاسمک شعاوں کی وجہ بن سکتی ہے۔ ایسا بعض اوقات ہمارے نظام شمسی سے باہر بھی ہو سکتا ہے۔ یہ ذرات روشنی کی رفتار سے سفر کرتے ہیں اور ان کے ٹکرانے سے ہونے والے نقصانات بصری طور پر دیکھے جا سکتے ہیں۔ زمین اور مریخ کے ماحول میںوحول کاسمک تابکاری کے مقابل موزوں اور طاقتور ردعمل نہ ہونے کی وجہ سے ان دونوں سیاروں پر کاسمک ذرات کی کافی مقدار پائی جاتی ہے۔