ڈیوک آف کیمبرج شہزادہ ولیم نے عندیہ دیا ہے کہ برطانوی شاہی نظام ان ملکوں کے کسی بھی ایسے فیصلے کی حمایت کرے گا جو ملکہ برطانیہ کو سربراہ مملکت کے عہدے سے ہٹانے اور ملک کو جمہوریہ بنانے کے لیے کریں گے۔
شہزاہ ولیم نے بہاماس میں تقریر میں کہا کہ اگرچہ ملکوں کے درمیان ’تعلقات بدلتے رہتے ہیں‘ لیکن ’دوستی باقی رہتی ہے‘ شہزاہ ولیم اور کیٹ مڈلٹن کےغرب الہند کے تین ملکوں کے پلاٹینم جوبلی دورے کے موقعے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔
شہزادہ ولیم کا بیان ایسے وقت پر سامنے آیا جب جمیکا نے بارباڈوس کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عندیہ دیا ہے کہ اس نے ملکہ الزبتھ دوم کو سربراہ مملکت کے عہدے سے ہٹانے کی کارروائی شروع کر دی ہے۔
بارباڈوس نومبر 2021 میں ایسا کرنے والا دولت مشترکہ کا تازہ ترین ملک ہے۔ بارباڈوس 40 سال تک برطانوی بادشاہت کے ماتحت رہنے کے بعد گذشتہ سال ہونے والی تقریب میں جمہوریہ بن گیا۔
ملکہ برطانیہ نے نئے جمہوری ملک بارباڈوس کو’نیک خواہشات کا پرتپاک ترین پیغام‘ بھیجا اور کہا کہ انہیں امید ہے کہ ’دونوں ملکوں اورعوام کے درمیان دوستی قائم رہے گی۔‘
ملکہ نے کہا: ’جب آپ یہ بڑا ہم دن منا رہے ہیں میں آپ کو اور بارباڈوس کے عوام کو مستقبل میں خوشی، امن اور خوشحالی کے لیے اپنی پرتپاک ترین نیک خواہشات کا پیغام بھیج رہی ہوں۔‘
آسٹریلیا سمیت دولت مشترکہ کے دوسرے ملکوں نے بھی حالیہ سالوں میں تجویز دی ہے کہ ملکہ برطانیہ کو ہٹا کر سربراہ مملکت کا عہدہ کسی اور کو دے دیا جائے۔
69 سال تک تاج برطانیہ کو سر پر رکھتے ہوئے ملکہ جن 32 ملکوں کی حکمران رہیں ان میں سے 17 نے انہیں اس عہدے سے الگ کر دیا ہے۔
لیکن باقی ملکوں میں ملکہ کا موجودہ عہدہ کیا ہے اور انہیں ان ملکوں میں کس قدر اختیار حاصل ہے؟
کون سے ملک ملکہ الزبتھ کو اب بھی سربراہ مملکت تسلیم کرتے ہیں؟
کبھی ملکہ کو دولت مشترکہ میں شامل تمام ملکوں میں سربراہ مملکت کے طور پر تسلیم کیا جاتا تھا اور وہ ان پر اسی طرح حکمرانی کرتی تھیں جس طرح برطانیہ پر۔ انہیں اپنے والد شاہ جارج ششم کی وفات کے بعد سربراہ مملکت تسلیم کیا گیا جو 1949 کے اعلان لندن کے مطابق دولت مشترکہ کے سربراہ تھے۔
آج، ملکہ برطانیہ سمیت دولت مشترکہ میں شامل 15 ممالک کی سربراہ مملکت ہیں۔ دیگر ممالک آسٹریلیا، کینیڈا، نیوزی لینڈ، اینٹی گوا اور باربودا، بہاماس، بیلیز، غرناطہ، جمیکا، پاپوا نیو گنی، سینٹ لوشیا، جزائرسلیمان، سینٹ کٹس اینڈ نیوس اور سینٹ ونسنٹ اور گریناڈائنز ہیں۔
برطانوی ملکہ کو سمندر پار برطانیہ کے ماتحت متعدد علاقوں میں سربراہ مملکت مانا جاتا ہے۔ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ دولت مشترکہ میں شامل نہیں جیسا کہ جبرالٹا، فاک لینڈ آئیلینڈ، برمودا اور جزائر کیمین ہیں۔
کون سے ملکوں نے ملکہ کو سربراہ مملکت تسلیم کرنا ترک کر چکے ہیں؟
ایسے میں جب بارباڈوس آزادی حاصل کرنے اور ملکہ کی جگہ اپنا صدر مقرر کرنے والا تازہ ترین ملک ہے لیکن وہ ایسا کرنے والا پہلا ملک نہیں۔ 1992 میں وہ آخری ملک جس نے یہی کام کیا وہ موریشس ہے۔ اس سے پہلے ڈومینیکا 1978 میں ایسا ہی کیا تھا۔ ترنیداد اور توباگو نے 1976 اور گیانا نے 1970 میں ملکہ کو سربراہ مملکت کے عہدے سے ہٹایا۔
کیا دوسرے ملک ملکہ کو سربراہ مملکت کے عہدے سے ہٹائیں گے؟
جمیکا کے وزیر اعظم اینڈریو ہولنس نے اس ہفتے کے شروع میں اپنے دورے کے دوران ڈیوک اور ڈچس آف کیمبرج کو عندیہ دیا کہ ان کا ملک جمہوریہ بننے والا اگلا ملک ہو سکتا ہے۔
بدھ کو انہوں نے جمیکا کے دارالحکومت کنگسٹن میں ڈیوک اور ڈچس کا استقبال کیا انہیں بتایا کہ جمیکا ’آگے بڑھ رہا ہے‘ اور ’آزاد، ترقی یافتہ اور خوشحال ملک کی حیثیت سے اپنی خواہشات کی تکمیل اور مستقبل کا فیصلہ‘ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیلیز نے بھی عندیہ دیا ہے کہ وہ بھی ایسا ہی کرنے پر غور کر رہا ہے۔ ڈیوک اور ڈچس کے بلیز سے جانے کے بعد آئینی اور سیاسی اصلاحات کے وزیر ہنری چارلزاشر نے مبینہ طور پر ملکی پارلیمان کو بتایا: ’میڈم سپیکر غرب الہند کے علاقے میں سامراجیت کے خاتمے کا عمل فروغ حاصل کر رہا ہے۔ شائد بیلیز کے لیے وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی آزادی کو حقیقی معنوں میں اپناتے ہوئے اگلا قدم اٹھائیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ اس ضمن میں فیصلہ لازمی طور پر بیلیز کے عوام کو کرنا ہو گا۔‘
اس معاملے پر آسٹریلیا میں کئی بار بحث بھی ہو چکی ہے۔ ملک میں آخری بار 1999 میں ملکہ کو سربراہ مملکت کے عہدے سے ہٹانے کے لیے ریفرنڈم کروایا گیا تھا لیکن 54.9 فیصد لوگوں نے ملکہ کو عہدے پر برقرار رکھنے کے حق میں ووٹ دیا۔ 2008 میں، سابق وزیر اعظم کیون رُڈ نے کہا تھا کہ وہ ملکہ کو سربراہ مملکت کے عہدے سے ہٹانے کے لیے پرعزم ہیں لیکن وہ آج بھی اس عہدے پر برقرار ہیں۔
کیا ملکہ سربراہ مملکت کے طور پر اختیارات کی مالک ہیں؟
برطانیہ کی ملکہ ان ملکوں میں جہاں ان کو سربراہ مملکت تسلیم کیا جاتا ہے، محض رسمی حکمران ہیں اور ان کے پاس کوئی حقیقی اختیار نہیں ہے۔ ہر ملک میں آزاد نظام قائم ہے جس میں بادشاہ کا کوئی عمل دخل نہیں۔ ملک کے اپنے منتخب حکمران اور قوانین ہیں۔ گورنر جنرل جو ملکہ کے نمائندہ کے طور پر کام کرتا ہے یومیہ بنیادوں پر وہ رسمی فرائض انجام دیتا ہے جن کی عام طور پر ملکہ سے توقع کی جاتی ہے۔ ان فرائض میں وہ ذمہ د اریاں جیسا کہ وزرا اور سفرا مقرر کرنا یا قانون سازی کی شاہی منظوری دینا شامل ہے۔
© The Independent