یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجے
ابلاغیات کے ادنیٰ طالب علم کے طور پر مشرق وسطیٰ اور بالخصوص عرب دنیا کے ذرائع ابلاغ میں پاکستان کی حالیہ سیاسی صورت حال کی کوریج کا جائزہ لینے کا سودا من میں سمایا تو مجوزہ تحقیق کے لیے ضروری مواد جمع کرنے کی خاطر ہم نے شرق اوسط اور بالخصوص عرب دنیا سے شائع ہونے والے سرکردہ اخبارات اور سیٹلائیٹ ٹی وی چینلوں کا سرسری جائزہ لینا شروع کیا۔
یہ جان کر انتہائی صدمہ پہنچا کہ مواصلاتی ترقی کی برکت سے عالمی گاؤں بن جانے والی دنیا کو پاکستان میں ہونے والی ایک ایسی اہم سیاسی پیش رفت سے کوئی سروکار ہی نہیں کہ جو ہمارے ہاں حکومت وقت کے خاتمے پر بھی منتج ہو سکتی ہے۔ چند دن پہلے تک یہی پاکستانی حکومت دنیا کے مختلف ملکوں سے اہم سٹرٹیجک معاہدوں پر دستخط اور اسلامی دنیا کے نمائندہ فورم ’او آئی سی‘ کی میزبانی کا اعزاز حاصل کر رہی تھی۔
پہلے تو خیال آیا کہ شاید پاکستان عرب خطے سے دور ہے اس لیے ’آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل‘ کے تحت اسے نظر انداز کیا جا رہا ہے، تاہم جب مشرق وسطیٰ کے انہی ذرائع ابلاغ میں ہزاروں میل دور ہونے والے دوسرے اہم و غیر اہم واقعات کی نمایاں کوریج دیکھی تو میرا ماتھا ٹھنکا کہ خبر کے اندر کی خبر کچھ اور ہے۔
انفارمیشن سپر ہائی وے کی موجودگی میں سرعت اور تندہی سے کام کرنے والے سفارتی چینلز کے باوجود اسلامی دنیا کے واحد ایٹمی ملک میں آنے والے سیاسی اتار چڑھاؤ پر عرب دنیا کے ذرائع ابلاغ میں توجہ نہ ملنا ایک لمحہ فکریہ ہے۔ اس سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے سیاسی حالات سے اس قدر بے خبری یا بے رغبتی کسی حد تک اسلام آباد کی خارجہ پالیسی کی ناکامی کی بھی دلالت کرتی ہے۔
پاکستان کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات میں حالیہ دنوں شدید گراوٹ دیکھنے میں آئی۔ یہ افسوس ناک صورتِ حال پاکستان کے مفادات کے لیے سخت نقصان دہ ثابت ہو رہی ہے۔
صرف دو سال پہلے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اسلام آباد کا دورہ کیا۔ انہوں نے گوادر میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔ اس کے علاوہ کئی ارب ڈالر مالیت کے تیل کی فراہمی پر موخر ادائیگی کی سہولت دی۔ زر مبادلہ کے ذخائر کو سہارا دینے کے لیے پاکستان کے پاس رقم جمع کرائی۔
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ترکی، قطر، ایران اور ملائیشیا کے ساتھ مل کر او آئی سی مخالف بلاک بنانے کی عمران خان کی تباہ کن کوشش نے تمام خیر سگالی کا خاتمہ کر دیا۔ ان ممالک کے رہنما نہ صرف شہزادہ محمد بن سلمان سے مخاصمت رکھتے ہیں بلکہ ان کی پاکستان کے لیے سٹریٹیجک یا مالی اہمیت بھی نہ ہونے کے برابر ہے۔
اسی ناکام خارجہ پالیسی کا ایک پہلو یہ ہے کہ سعودی عرب سے انتہائی قربت رکھنے والی خلیجی ریاستوں نے پاکستان سے افرادی قوت حاصل کرنا موقوف کر دی ہے۔ پاکستانی زرِ مبادلہ کا ایک بڑا حصہ انہی محنت کشوں کی بھجوائی گئی رقوم پر مشتمل ہوتا ہے۔
اب خدشہ ہے سعودی عرب اور امارات میں پاکستانی افرادی قوت کی جگہ بھارتی لے لیں گے۔ ایسا اس وقت ہونے جا رہا ہے جب یہ خطہ ثقافتی پابندیوں کو نرم کر کے اپنی معیشت کو غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے کھول رہا ہے۔
کچھ عرصہ قبل پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ سے مراد فوج، ایجنسیاں اور بیورو کریسی سمجھی جاتی تھی اور اگر یہ اسٹیبلشمنٹ کسی حکومت کی حامی نہیں ہوتی تھی تو سمجھا جاتا تھا کہ حکومت تھوڑے عرصے کی مہمان ہے۔
نائن الیون کے بعد پاکستان کے اندرونی معاملات اور سیاست میں بیرونی ممالک کی مداخلت بڑھتی چلی گئی۔ امریکہ، برطانیہ اور بعض عرب ممالک ہماری اسٹیبلشمنٹ کا حصہ بن کر ملک میں ہونے والے بڑے فیصلوں پر اثر انداز ہوتے رہے ہیں۔
مشرف کے دور حکومت میں انتخابات سے قبل پیپلز پارٹی اور مشرف کے مابین معاہدہ کروانے میں یہی نئی اسٹیبلشمنٹ سرگرم رہی جس کی رو سے مشرف کو مزید پانچ سال پاکستان کا صدر رہنے کی ضمانت دلوائی گئی اور بے نظیر اور نواز شریف کی پاکستان واپسی ممکن ہوئی۔ مگر بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد اس معاہدے پر عمل نہ ہو سکا اور مشرف کو صدارت سے مستعفیٰ ہونا پڑا۔
سعودی عرب نے ماضی ہی میں پرویز مشرف کے دور حکومت میں نواز شریف خاندان سے ذاتی مراسم کی بنا پر ’پس پردہ ہونے والی غیر رسمی سفارت کاری‘ کے نتیجے میں انہیں اپنے ہاں عبوری مدت کے لیے ’شاہی مہمان‘ بنایا۔
ابتدا میں یہ ڈیل خفیہ رہی لیکن بعد میں نواز شریف اینڈ فیملی نے اس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے عبوری مدت ختم ہونے سے پہلے سعودی عرب سے لندن جا کر سیاسی زندگی سرگرمیاں شروع کرنے کی کوشش کی تو اس پر جنرل مشرف کی حکومت نے سعودی عرب سے گلے شکووں کا پٹارہ کھول دیا۔
بعد ازاں نواز شریف فیملی کی سیاسی جدوجہد سے خائف مشرف حکومت ’خفیہ معاہدے‘ کی تفصیلات نواز شریف کے سیاسی مخالفین کے ذریعے منظر عام پر لے آئی جس کی وجہ سے سعودی عرب کو بہت زیادہ خجالت کا سامنا کرنا پڑا۔ اس واقعے کے بعد سعودی عرب نے پاکستان کی سیاسی اتھل پتھل میں کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے سے معذرت کی پالیسی اپنالی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی نہیں نواز شریف کی اقتدار سے بے دخلی کے بعد عمران خان کے دور حکومت میں اول الذکر کے خلاف ہونے والی عدالتی کارروائی کے دوران نواز فیملی نے ایک مرحلے پر اپنے لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق قطر کے شہزادوں کا ایک خط عدالت میں بطور ثبوت پیش کیا، جس میں یہ بات ثابت کرنے کی کوشش کی گئی تھی کہ لندن اثاثے قطری حکمرانوں سے نواز شریف کے خاندانی مراسم اور تعلقات کے بنا پر خریدے گئے تھے۔
سیاسی مخالفین اور عدلیہ نے نواز شریف کے قطری شہزادوں کے خطوط کی قانونی حیثیت کو بوجوہ تسلیم کرنے انکار کیا تو اس کے بعد قطری حکمرانوں سے متعلق پاکستانی ذرائع ابلاغ میں انتہائی منفی پروپیگینڈا کیا جانے لگا۔ ہر بوگس دستاویز کو ’قطری خط‘ کا نام دے کر برادر عرب ملک کی تضحیک کی جانے لگی۔
ان واقعات کی وجہ سے پاکستانی سیاسی قیادت کا اعتبار عرب دنیا کے دو اہم دارالحکومتوں میں ختم ہوگیا۔ اسی لیے عمران خان کے دور حکومت میں نواز شریف کو پاکستان میں عرصہ حیات تنگ ہونے پر سعودی عرب اور قطر کے بجائے اس مرتبہ لندن میں اپنے لیے گوشۂ عافیت تلاش کرنا پڑا۔
بعض مبصرین سمجھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ اور بالخصوص عرب دنیا کے ذرائع ابلاغ کی بڑی تعداد حکومت وقت کی متعین کردہ ’کنٹرولڈ‘ ادارتی پالیسی پر عمل کرتی ہے۔ خلیجی ملکوں سے شائع ہونے والے انگریزی زبان کے اخبارات کے نیوز رومز میں بھارتی صحافیوں کی بھرمار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی خبروں اور بالخصوص متعلقہ ملک کی خارجہ پالیسی سے متصادم کوئی بھی موقف ان اخبارات میں جگہ نہیں بنا پاتا۔
عرب میڈیا اپنے ہاں مقیم پاکستانی اور بھارتی تارکین وطن کی بڑی تعداد کو ذہن میں رکھتے ہوئے مختلف ایشوز پر خبریں بناتا اور شائع کرتا ہے۔ ان دونوں کمیونٹیز سے متعلق عرب دنیا کی حساسیت کے پیش نظر بعض اوقات بھارت اور پاکستان کی داخلی سیاست سے متعلق خبریں عرب میڈیا میں جگہ نہیں بنا پاتیں۔
اس وقت ایک مرتبہ پھر پاکستانی سیاست میں بیرونی مداخلت کے حوالے سے تحریک انصاف کی حکومت ایک خفیہ مراسلے کا شور اٹھا رہی ہے۔ پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں بھی فوج کے خلاف میمو گیٹ سکینڈل کا شور اٹھا کر سیاسی حساب چکتا کرنے کی کوشش دیکھی گئی تھی، جس کا فائدہ کسی کو نہیں ہو سکا۔
ماضی کی ہمہ جہت ملکی اور غیر ملکی اسٹیبلشمنٹ پاکستان کی موجودہ صورت حال سے متعلق اس حد تک ’نیوٹرل‘ ہو چکی ہے کہ ملکی سیاست کے بارے میں کوئی بھی خبر شرق اوسط کے طول وعرض سے شائع ہونے والے اخبارات اور سیٹلائیٹ میڈیا میں کماحقہ جگہ بنانے میں بری طرح ناکام ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
بعض تکنیکی مسائل کی وجہ سے ہماری ویب سائٹ پر کچھ لفظ درست طریقے سے دکھائی نہیں دے رہے۔ ہم اس مسئلے کو جلد از جلد حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ادارہ اس کے لیے آپ سے معذرت خواہ ہے۔