ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کی طرف سے تحریک عدم اعتماد کو رائے شماری کی بجائے رولنگ کے ذریعے مسترد کرنے پر سپریم کورٹ کے ازخود نوٹس اور اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے دائر کی گئی درخواستوں پر پیر کے دن پہلی باقاعدہ سماعت ہوئی۔
عدالت کی پہلے دن کی کارروائی میں اسمبلی کے سپیکر کی طرف سے رولنگ کے ذریعے کسی بھی پیش کردہ تحریک اور خاص طور پر تحریک اعتماد کو مسترد کر دینے کے اختیار کا دائرہ کار اور اس کے ساتھ ساتھ آئین کا آرٹیکل 69 جو اعلیٰ عدلیہ کو اسمبلی کی کارروائی میں مداخلت کرنے سے روکتا ہے، زیر بحث رہے۔
البتہ اس دوران آئین کے آرٹیکل 5 اور وزیراعظم کو لکھے گئے مبینہ خط کے مندرجات زیر بحث نہیں آئے۔ آرٹیکل 5 وہی آرٹیکل ہے جس کے تحت ڈپٹی سپیکر نے اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے پیش کی گئی تحریک عدم اعتماد مسترد کر دی تھی۔
جمہوری نظام اور خاص طور پر پارلیمانی جمہوری نظام میں سپیکر کی حیثیت اور اختیارات کیا ہیں، یا کیا ہونے چاہییں، درج ذیل سطور میں اسے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
سپیکر محض ایک منتظم
پارلیمانی جمہوریت اور بطور خاص اس کے برطانوی ماڈل میں جسے ’ویسٹ منسٹر ماڈل‘ کہتے ہیں، قانون سازی کرنے اور انتظامیہ (ایگزیکٹیو) کی سربراہی کے اختیارات ایک ہی ادارے یعنی پارلیمان کو حاصل ہوتے ہیں۔
سادہ الفاظ میں پارلیمانی نظام حکومت میں ملک کی انتظامیہ پارلیمان کے ماتحت کام کرتی ہے۔ پارلیمانی نظام حکومت میں سپیکر کی حیثیت محض ایک منتظم کی ہوتی ہے جسے قواعد کے مطابق اسمبلی کی کارروائی کو آگے بڑھانا ہوتا ہے۔
دنیا کی اکثر جمہوریتوں میں سپیکر کسی بھی معاملے میں اپنا ذاتی ووٹ بھی صرف استثنائی صورتوں میں استعمال کر سکتا ہے۔ پارلیمانی نظام میں وہ اختیارات جو منتخب کردہ عوامی نمائندوں (انہیں اجتماعی طور پر پارلیمان کہا جاتا ہے) کو دیے گئے ہیں ان میں سب سے اہم حق حکمران کا چناؤ ہے۔ یہی اختیار پارلیمانی نظام حکومت کو کسی بھی دوسرے نظام حکومت سے ممتاز کرتا ہے۔
پارلیمان ہی سپریم ہے
انتظامیہ کا سربراہ جسے اکثر وزیراعظم کہا جاتا ہے، پارلیمانی جمہوریت کی روح کے مطابق پارلیمان کے اکثریتی ارکان کی حمایت حاصل رہنے تک اپنے عہدے پر برقرار رہ سکتا ہے۔ وزیراعظم کے چناؤ کے حق کو وزیراعظم کو معزول کرنے کے حق سے علیحدہ کر کے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔
اگر کسی بھی پارلیمانی نظام میں پارلیمان کو حکمران چننے یا انہیں معزول کرنے کا حق پارلیمان کے اراکین کے علاوہ کسی اور ادارے یا عہدے کی خوشنودی سے مشروط کر دیا جائے تو اسے پارلیمانی نظام میں تحریف سمجھا جاتا ہے۔
ماضی قریب میں اس کی ایک مثال پاکستان کے آئین میں آرٹیکل 58 ٹو بی کا اختیار تھا جسے صدر پاکستان پارلیمان کی اکثریت کے ووٹ سے منتخب ہونے والے وزیراعظم کو معزول کرنے کے لیے استعمال کر سکتا تھا۔ اس اختیار پر پاکستان کے قانونی اور سیاسی حلقوں کی جانب سے بہت تنقید کی جاتی تھی اور بعد میں پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر اس اختیار کو ختم کر دیا تھا۔
کیا سپیکر قومی اسمبلی کے اختیارات کو محدود کر سکتا ہے؟
اس پس منظر میں سپریم کورٹ آف پاکستان کے سامنے زیر تجویز مقدمے میں بنیادی سوال یہی ہے کہ کیا سپیکر قومی اسمبلی کو ان اختیارات پر کوئی قدغن لگانے کا حق دیا جا سکتا ہے جو پارلیمانی جمہوری اصولوں کے مطابق صرف اور صرف اراکین اسمبلی کو حاصل ہیں؟
اگر اس سوال کا جواب ہاں میں آتا ہے تو کیا پاکستان کے مخصوص سیاسی تناظر میں یہ اختیار کسی بھی برسر اقتدار جماعت بلکہ کسی بھی پارلیمانی گروہ کو محض سپیکر کے تعاون سے پارلیمان کی اکثریتی رائے کو بلڈوز کرنے کے لیے ایک چور راستہ فراہم کرنے کے مترادف نہیں ہو گا؟
مثلاً کل کلاں کو کوئی قانون منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا جاتا ہے، ایوان کی اکثریتی رائے میں اس قانون کو منظور ہو جانا چاہیے، ( یہ یاد رہے کہ سوائے دستوری ترمیم کے، قانون سازی کے عمل میں کسی بھی رکن اسمبلی پر پارٹی لیڈر کی ہدایات پر عمل کرنا آئینی طور پر لازم نہیں ہے) مگر سپیکر قومی اسمبلی اپنی صواب دید استعمال کرتے ہیں اور یہ کہہ کر اس قانون پر یہ رولنگ دے کر رائے شماری کروانے سے انکار کر دیتے ہیں کہ ایسا قانون ان کی رائے میں آئین کے آرٹیکل تین اے میں بتائے گئے ’سپریم لا‘ یعنی قرآن و سنت سے متصادم ہے، لہٰذا اسے رائے شماری کیے بغیر مسترد کر دیا جائے ۔
کیا ایسی صورت میں پارلیمانی نظام محض بازیچۂ اطفال نہیں بن جائے گا؟
وزیراعظم کے انتخاب یا وزیراعظم کو بذریعہ عدم اعتماد معزول کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل اس قدر واضح ہیں اور ان کی کوئی اور تعبیر پارلیمانی جمہوریت کے بنیادی اصول یعنی اکثریت کی حکومت سے انحراف کیے بغیر اختیار کرنا بہت مشکل ہے۔
ایسی صورت میں عدالتوں کو نظریہ ضرورت ہی شاید جادو کی اس کنجی کے طور پر کام دے سکے جو ماضی میں بھی ہمارے بہت سے عدالتی فیصلوں کی راہ میں رکاوٹ بننے والے جمہوری اصولوں کا تالا کھولنے کے کام آتی رہی ہے۔
وزیرِ اعظم کی تقرری اور معزولی
پاکستان کے دستور کے مطابق انتظامیہ پر پارلیمان کی حکمرانی کا حق ملک کے ایوان زیریں، یعنی قومی اسمبلی کو حاصل ہے۔ قومی اسمبلی اپنے کسی بھی مسلمان رکن کو جسے قومی اسمبلی میں سادہ اکثریت یعنی قومی اسمبلی کی نصف تعداد، جو 171 بنتی ہے، سے محض ایک ووٹ سے زیادہ کی حمایت حاصل ہو، اسے انتظامیہ کا سربراہ یعنی وزیراعظم مقرر کرتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرے الفاظ میں ایک آئینی وزیراعظم کے لیے لازم ہے کہ اسے ہر وقت قومی اسمبلی کے کم از کم 172 ارکان کا اعتماد حاصل رہے۔ آئین کے آرٹیکل 95 کے مطابق قومی اسمبلی کے کل ارکان کی تعداد کے 20 فیصد ارکان کسی بھی وقت (سوائے اس وقت جب بجٹ زیر غور ہو) وزیراعظم کے بارے میں یہ مطالبہ کر سکتے ہیں کہ وہ قومی اسمبلی کی اکثریت کا اعتماد کھو بیٹھا ہے، لہٰذا اسے ملک کی انتظامیہ کے سربراہ کے طور پر قومی اسمبلی کی نمائندگی کرنے کا حق نہیں رہا۔
اسے سادہ لفظوں میں تحریک عدم اعتماد کہا جاتا ہے۔ ایسی صورت میں جمہوری اصولوں کے مطابق بھی اسمبلی کے سپیکر کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی اختیار نہیں ہونا چاہیے کہ وہ اس تحریک پر آئین میں دیے گئے وقت یعنی تین سے سات دن کے اندر اندر رائے شماری کروائے۔
سپیکر قومی اسمبلی کو وزیراعظم کے خلاف عدم اعتماد پر رائے شماری کے بغیر قرارداد کو خارج کرنے کا اختیار تو دستور کے کسی آرٹیکل میں موجود نہیں، البتہ اس سلسلے میں سپیکر کی طرف سے کیے جانے والے اقدامات کے لیے ایک واضح ٹائم فریم دستور ہی میں فراہم کر دیا گیا ہے۔
پاکستان کے دستور میں پارلیمانی جمہوری اصولوں کی مطابق سپیکر کے پاس نہ تو قانون سازی کے عمل میں، نہ وزیراعظم کے انتخاب میں اور نہ ہی وزیراعظم کی معزولی بذریعہ تحریک عدم اعتماد میں کسی قسم کے صوابدیدی اختیارات موجود ہیں۔
یہاں تک کہ اسے تقریباً ان امور میں ووٹ کا حق بھی نہیں دیا گیا۔ ایسے تمام معاملات دستور کے مطابق رائے شماری کے لیے اسمبلی کے اراکین کے سامنے رکھے جاتے ہیں جو اکثریتی رائے کی بنیاد پر ان امور کے بارے میں اپنے فیصلے کا اظہار کرتے ہیں۔ سپیکر قومی اسمبلی ان تمام امور کے لیے محض قواعد کے مطابق ہاؤس کی کارروائی چلانے کے اختیارات رکھتا ہے۔
گویا آئین کے مطابق انتظامیہ کے سربراہ یعنی ملک کے چیف ایگزیکٹو کو منتخب کرنے یا اسے معزول کرنے کا مطلق اختیار قومی اسمبلی کو حاصل ہے جس کا طریقہ کار صرف اور صرف رائے شماری ہے اور اسمبلی کا یہ اختیار کوئی بھی ادارہ یا کوئی بھی عہدہ، وہ چاہے جتنا بھی اہم یا معتبر کیوں نہ ہو، پارلیمان سے چھین نہیں سکتا۔
قومی اسمبلی کی حکمرانی بذریعہ رائے دہندگی میں بذریعہ مارشل لا ماورائے آئین مداخلت کی جائے یا آئین کا نام لے کر بذریعہ رولنگ، دونوں ایک ہی طرح سے آئین کی تنسیخ کے مترادف ہیں۔