نوئے کی دہائی کی ایک پنجابی فلم کے ایک سین میں سلطان راہی آدھی رات کو عدالت کی دیوار پھلانگتے پکڑے گئے۔ جب وجہ پوچھی گئی تو بولے، ’عدالت سے انصاف لینے آیا ہوں۔‘
انہیں بتایا گیا کہ عدالت تو دن کے وقت لگتی ہے۔ اس پر سلطان راہی نے جو ڈائیلاگ بولا وہ بہت مشہور ہوا تھا، ’اوئے تھانےدارا! ظلم 24 گھنٹے ہوتا ہے اور انصاف صرف 12 گھنٹے، یہ کہاں کا قانون ہے؟‘
پاکستان میں حالیہ دستوری بحران کے دوران ہفتے کے روز تقریباً آدھی رات کو اسلام آباد ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ کھول دی گئیں۔ بہت سے لوگوں کے خیال میں یہ پاکستان کی تاریخ کا پہلا ایسا واقعہ ہے جس کی پہلے کوئی نظیر موجود نہیں اور بہت سے لوگوں کے نزدیک تو عدالتوں کا چھٹی کے دن کام کرنا چونکہ قانون میں موجود نہیں ہے، لہٰذا یہ بدنیتی پر مبنی ہے۔
یہ تاثر آئینی اور قانونی طور پر درست نہیں ہے اور ماضی میں بھی ایسی مثالیں موجود ہیں جب عدالتوں نے چھٹی کے دن بھی کام کیا۔
سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کی جیل میں شدید علالت کی خبریں سامنے آئیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اکتوبر کو ہفتے یعنی چھٹی کے روز عدالت لگا کر نواز شریف کو ضمانت دی تاکہ وہ جیل سے باہر نکل کر اپنا علاج کرا سکیں۔ لاہور ہائی کورٹ نے ہفتے ہی کے دن عدالت لگا کر ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ سے نکالنے حکم دیا۔
اسی طرح سے عدالت کسی ایک عمارت تک محدود نہیں ہے۔ 2007 میں جنرل مشرف کی طرف سے تین نومبر کو ملک میں ایمرجنسی لگا کر بنیادی آئینی حقوق معطل کر دیے گئے اور ججز کو ان کی رہائش گاہوں تک محدود کر دیا گیا تو چیف جسٹس افتخار چوہدری کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے ایک سات رکنی بینچ نے ججز کالونی میں بیٹھ کر، عدالت آئے بغیر ہی شام کے وقت اس ایمرجنسی کے حکم نامے کو معطل کرنے کا حکم صادر کیا اور ملک بھر کے ججز کو نیا حلف لینے سے روک دیا گیا۔
بعد میں عدلیہ بحال ہوئی تو سپریم کورٹ نے اپنے اسی حکم نامے کی خلاف ورزی کی پاداش میں سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے کئی درجن ججز کو اپنے عہدوں سے برطرف کر دیا تھا۔
اس معاملے کی قانونی حیثیت یہ ہے کہ دنیا کے اکثر ممالک کی طرح پاکستان اور بھارت میں عدالتیں کبھی بند نہیں ہوتیں، مگر یہ عدالتیں عدالتی اوقات کار کے علاوہ صرف عارضی اور فوری نوعیت کے معاملات ہی سنتی ہیں، اور ان ججز کو ’ڈیوٹی ججز‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ججز تعطیلات کے دوران، حتیٰ کہ عید کے دن بھی بطور ڈیوٹی ججز موجود ہوتے ہیں۔
اس کی مثال ’آن کال‘ ڈاکٹروں کی سی ہے، جو چھٹی کے وقت اپنے گھروں پر ہوتے ہیں لیکن ایمرجنسی کی صورت میں انہیں ہسپتال بلایا جا سکتا ہے۔
قانون کے مطابق پاکستان کی آئینی عدالتوں، یعنی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے جج اپنی آئینی ذمہ داری کے نفاذ کے لیے کسی جگہ یا مخصوص وقت کے پابند نہیں ہیں۔ اعلیٰ عدلیہ چونکہ آئین کی محافظ تصور ہوتی ہے اور آئین میں شہریوں کو دیے گئے تمام بنیادی حقوق کا ریاست کے ہر ادارے پر نفاذ انہی کا اولین فریضہ ہے۔ بنیادی انسانی حقوق کا احترام کیے جانے کے بھروسے پر ہی شہری اپنی شخصی آزادیاں ریاست کے سپرد کر دیتے ہیں۔
چنانچہ عدالتیں آئین میں دیے گئے بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے لیے وقت اور مخصوص جگہ کی پابند نہیں ہیں اور کسی شخص کی آزادی یا زندگی خطرے ہو یا ملک میں کوئی آئینی بحران سر اٹھا رہا ہو جس سے کاروبار مملکت معطل ہو سکتا ہو تو چاہے عدالت کی عمارت کو تالے بھی لگے ہوں، عدالت اپنا کام کر سکتی ہے۔
ایسی صورت حال میں جج اپنے ریٹائرنگ روم میں تو کیا، چھٹی کرکے گھر جاتے ہوئے گاڑی روک کر گاڑی کے بونٹ پر بھی کاغذات رکھ کر حکم جاری کر سکتا ہے اور یہ مکمل طور پر قانونی ہے، کیونکہ اس کے لیے ہی انہیں بنیادی شہری حقوق کے نفاذ اور ریاست کے آئینی ڈھانچے کی حفاظت کی ذمہ داری سونپی گئی ہے۔
لیکن یہ بھی ذہن نشین رہے کہ ایسا صرف استشنائی صورتوں میں ہی ہو سکتا ہے اور عام حالات میں نظام انصاف کے بزنس آورز یعنی اوقات کار طے شدہ ہوتے ہیں۔
اسی طرح عدالت لگنے کا مقام بھی طے شدہ ہوتا ہے۔ ہر آنے والے ہفتے میں اعلیٰ عدلیہ کی فہرست مقدمات جاری ہفتے کے اختتام پر جاری کر دی جاتی ہے۔ فہرست جاری ہو جانے کے بعد صرف نئے مقدمات میں دائر کی گئی ’ارجنٹ‘ درخواستیں ہی اس فہرست میں شامل ہو سکتی ہیں۔ اس تعین کا مقصد مقدمات کی سماعت کی شفافیت کو یقینی بنانا ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں اعلیٰ عدالتوں نے صرف ایسے مقدمات میں ہی چھٹی کے دن یا عدالتی اوقات کے بعد عدالتوں نے فیصلے سنائے یا سماعت کی، جن کا یا تو کوئی آئینی یا سیاسی پس منظر تھا یا پھر جن افراد کے مقدمے سنے جا رہے تھے ان کا سیاسی پس منظر تھا۔
کیا صرف بڑے سیاسی رہنماؤں کی خاطر عدالتیں چھٹی کے روز کھلتی ہیں؟
اکثر تو ایسا ہی ہوا ہے لیکن ہماری عدالتی تاریخ میں ایک واقعہ ایسا بھی ہے جہاں ایک عام آدمی کے لیے عدالت نے خصوصی طور پر چھٹی کے دن عدالت لگائی۔
ہوا یوں کہ سخت بیماری کے پیش نظر میاں محمد نوازشریف کو چھٹی کے دن عدالت لگا کر اسلام آباد ہائی کورٹ سے ضمانت دی گئی تو متوقع طور پر اس پر کافی زیادہ ردعمل سامنے آیا۔
اس کے بعد نومبر 2019 میں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے اڈیالہ جیل کے ایک بیمار قیدی خادم حسین کی درخواست پر چھٹی والے دن بھی عدالت لگائی اور دوران سماعت نوازشریف کیس کا حوالہ دیتے ہوئے ایسے بیمار قیدیوں کے لیے عدالت کے دروازے چھٹی والے دن بھی کھلے ہونے کا اعلان کیا، جن کی جان کو بیماری کے سبب خطرہ ہو۔
البتہ اس کے بعد ایسے کتنے قیدیوں کے کیس عدالت میں چھٹی کے دن بھی لگائے گئے اس کی کوئی تفصیل دستیاب نہیں ہے۔