سکھ مذہب کے بانی بابا گرونانک دیو جی کی جنم بھومی ننکانہ صاحب سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر کلیان سنگھ کلیان گذشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے پنجابی زبان کے گورمکھی رسم الخط کی ترویج کے لیے کوشاں ہیں۔
پنجابی رسم الخط پر ان کی تحقیق یونیورسٹی کی سطح پرسلیبس کا حصہ ہے اور انہوں نے گورمکھی رسم الخط کو سیکھنے کے لیے آسان بنانے میں معاون ایک بنیادی قاعدہ بھی تحریر کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف پنجابی تنظیموں اور پنجابی زبان کے میڈیا ہاؤس ’بلیکھا‘ کے تعاون سے گورمکھی سکھانے کی ہفتہ وار فری کلاسز کا بھی انعقاد کرتے ہیں۔
انہیں یہ اعزاز بھی حاصل ہے کہ وہ پہلے سکھ پاکستانی ہیں جنہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی ہے۔
انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری پنجاب یونیورسٹی سے مکمل کی اور ان کے مقالے کا عنوان ’گرونانک دیو جی دی بانی وچ انسان دوستی‘ ہے۔
وہ اس وقت جی سی یونیورسٹی لاہور کے شعبہ پنجابی میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
پنجابی زبان کے گورمکھی رسم الخط کو فروغ دینے سے متعلق انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ یہ پنجابی کا اصل رسم الخط ہے۔
ڈاکٹر کلیان سنگھ کے مطابق ’چشتیہ، نوشاہیہ، سہروردیہ، قادریہ، نقشبندیہ، یہ وہ پانچ سلسلے تھے جنہوں نے پنجابی کو، گورمکھی کو ذریعہ تعلیم بنایا اور یہاں کے لوگوں کو اسلام کا پرچار کیا اور یہاں کے لوگ جو تھے وہ اسلام میں داخل ہوئے تو یہ سکھ مذہب سے تین سو سال پہلے، تین صدیاں پہلے کی بات ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ گورمکھی رسم الخط کو دوبارہ زندہ کرنے یا مقبول عام بنانے کے لیے ان سے پہلے بھی بہت سی شخصیات کام کرتی رہی ہیں۔
ڈاکٹر کلیان سنگھ کہتے ہیں کہ گورمکھی رسم الخط کے لیے کام کرنے والوں میں سید سبط الحسن ضیغم شاہ ، جمیل احمد پال، الیاس گھمن، اقبال قیصر کے ساتھ ساتھ کئی دیگر شخصیات شامل رہی ہیں۔
’میں نے جو بنیادی کام کیا وہ یہ ہے کہ ایک سو صفحوں کا قاعدہ بنایا ہے۔ جو تین بڑی یونیورسٹیوں لاہور کالج فار وومن یونیورسٹی، جی سی یونیورسٹی اور پنجاب یونیورسٹی میں رائج ہے۔‘
ڈاکٹر کلیان سنگھ کا ماننا ہے کہ بچے کے دماغ کی نشوونما اسی مادری زبان کے مطابق ہوتی ہے جو اس کے گھر میں بولی جاتی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اگر بچوں پر ابتدا میں ہی کسی دوسری زبان کو سیکھنے کا بوجھ ڈال دیا جائے تو اس سے وہ دماغی طور پر الجھنوں کا شکار ہو جاتے ہیں جس کا ان کے مستقبل پر برا اثر پڑتا ہے۔
’دیکھیں پنجابی زبان و ادب اتنا عالیشان ہے کہ اس کے سکرپٹ بھی دو ہیں، ایک جو فارسی رسم الخط میں ہے جسے ہم شاہ مکھی کہتے ہیں، دوسرا جو اس کا اوریجنل رسم الخط ہے جو صدیوں سے آ رہا ہے وہ گورمکھی ہے۔‘
وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ گورمکھی ایک سائنٹفک سکرپٹ ہے اس لیے اگر پنجابی زبان کو پروان چڑھانا ہے تو اسے قبول کرنا ہوگا۔
’اب موبائل کے لیے زیادہ ضروری ہے کہ سائنٹفک سکرپٹ ہو۔ آپ نے گوگل میں کام کرنا ہے یا گوگل میں آپ نے کوئی وکیبلری دیکھنی ہے تو وہ ساری کی ساری گورمکھی میں ہے۔‘
انہوں نے اس حقیقت کو تسلیم کیا کہ نئی نسل موبائل یا کمپیوٹر استعمال کرتے وقت پنجابی کی بجائے رومن لکھنے کو ترجیح دیتی ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ گورمکھی کو سکھ مذہب کے ساتھ جوڑنے کی وجہ سے بھی پاکستانی پنجاب میں اس کی پذیرائی کم ہے حالانکہ یہ رسم الخط سکھ مذہب سے بھی کئی صدیاں پہلے سے اس خطے میں رائج تھا۔
ڈاکٹر کلیان سنگھ کہتے ہیں کہ ’حوصلہ افزا بات یہ ہے کہ کچھ جگہوں پر ہماری نئی نسل گورمکھی سکرپٹ پر کام بھی کر رہی ہے جو حوصلہ افزا بات ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ وہ آنے والے وقت کے لیے بہت پرجوش اور خوش ہیں کیونکہ پاکستان میں پہلے گورمکھی کے جو چند اساتذہ تھے اب ان کی تعداد ہزاروں میں ہو چکی ہے۔
گورمکھی رسم الخط کی ترویج کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر کلیان سنگھ تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی پیچھے نہیں ہیں۔
ان کی تین کتابیں (سکھ کلچر، گورمکھی استاد اور نانک ہوسی بھی سچ ) کے عنوان سے شائع ہو چکی ہیں اور وہ چار کتابوں (سچی خوشی، سکھ ضابطہ حیات، سکھ کلچر، ماسی دیاں کہانیاں) کا گورمکھی میں ترجمہ بھی کر چکے ہیں۔
اس کے علاوہ ان کے ایک درجن سے زائد ریسرچ پیپرز بھی مختلف ادبی جریدوں میں شائع ہو چکے ہیں۔
ڈاکٹر کلیان سنگھ کا خاندان کئی دہائیوں سے گرودوارہ جنم استھان کا سیوک ہے اور وہ اب بھی اس کام سے جڑے ہوئے ہیں۔
جس طرح سکھ مذہب میں گرودوارے کے چار داخلی دروازے تمام مذاہب اور طبقات کے افراد کے لیے یکساں طور پر کھلے رہتے ہیں۔ اسی طرح کلیان سنگھ بھی پاکستان میں پنجابی زبان کی ترویج کے لیے باہمی احترام، امن، اتحاد اور بین المذاہب ہم آہنگی پر زور دیتے ہیں۔