بھانڈے قلعی کرالو۔۔۔
پرانے نوے بنا لو۔۔۔
آگیا ہاں شیدا قلعی گر۔۔۔
1977 میں ریلیز ہونے والی رنگین ہٹ فلم ’سسرال‘ کا یہ مشہور گانا مہدی حسن نے گایا، جس کے بول لکھے تھے ریاض الرحمان ساغر نے اور موسیقی ترتیب دی تھی ایم اشرف نے۔ گانا مشہور فلم سٹار شاہد پر فلمایا گیا۔ فلم نے کھڑکی توڑ بزنس کیا اور یہ گانا ہر چھوٹے بڑے کی زبان پر تھا۔
لیکن ’بھانڈے قلعی کرا لو‘ کی آواز گلی محلوں کے لیے نئی نہیں تھی۔ پاکستان کا شاہد ہی کوئی شہر، محلہ، گلی یا گھر اس صدا سے ناواقف ہو۔ چھوٹی سی قلعی گری کی مشین اور چند اوزاروں کے ساتھ کوئی نہ کوئی شیدا قلعی گر کسی نہ کسی روز، کہیں نہ کہیں آواز لگاتا تھا ’بھانڈے قلعی کرالو‘ اور گھروں کے کونوں کھدروں میں ڈھکے چھپے، کالے سیاہ، ڈینٹ پڑے، پیتل، تانبے اور لوہے کے ناکارہ برتن آناً فاناً گلی میں جمع ہو جاتے تھے۔
شیدا قلعی گر چمتکار دکھاتا اور پل بھر میں چند پیسوں کے عوض یہی برتن چمکتے دمکتے، نوے نکور اور کارگر بن کر گھروں میں سج جاتے۔
ایک مہینہ، دس دن ہوئے خان حکومت نے بھی صدا لگائی ’بھانڈے قلعی کرالو‘۔۔۔ ’سیاہ کاری‘ کے ذریعے کمائے اور بنائے کالے سیاہ اثاثوں کو چمکتا دمکتا، نَوا نکور اور کارگر بنوانے کی آ فر میں تحریکِ انصاف کی حکومت نے اپنے ماضی کے وعدوں اور دعووں کے منہ پر لگی کالک تو جیسے تیسے برداشت کرلی لیکن اصل مسئلہ تو اب آن کھڑا ہوا ہے!
بار بار کی صدا گیری پر بھی کوئی کان نہیں دھر رہا! کوئی اپنے گھروں کے کونوں کھدروں میں چھپائے گئے کالے سیاہ برتنوں کی قلعی نہیں کروا رہا۔
صدا لگانے والوں کا گلا دُکھ رہا ہے لیکن گھروں میں دبکے بیٹھے لوگوں کے کانوں پر گہرا پردہ پڑا ہے۔ صدا سُنی اَن سنی کردی ہے۔ اِکّا دُکّا نے آواز پر کان دھرا تو ہے لیکن فکرمند بھی ہیں کہ برتنوں کی قلعی نہ جانے کب تک چلے گی؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کیا وجہ ہے؟ آخر شیدے قلعی گر کی آواز کوئی سنتا کیوں نہیں؟ بار بار کی صدا لوگ ٹھکرا کیوں رہے ہیں؟ شیدے قلعی گر کا تو دل صاف ہے، نیت صاف ہے، لوگوں کے گھروں کی صفائی چاہتا ہے، اپنے گھر کی کمائی چاہتا ہے، دام بھی زیادہ نہیں مانگتا۔ پھر آخر وجہ کیا ہے؟
کیا لوگوں کو کالے برتنوں میں کھانے کی عادت پڑ گئی ہے؟ یا کسی نے دیکھ لیا ہے کہ شیدے قلعی گر کے اپنے گھر میں کئی برتن کالے پڑے ہیں! کوئی چمچہ، کوئی کڑچھا، کوئی گڑوا، کوئی لوٹا۔ شیدے قلعی گر کے اپنے گھر میں، اپنے کچن میں کئی برتنوں کی قلعی ہونا باقی ہے۔ کیا شیدا قلعی گر کالے سیاہ برتنوں کی ٹھوک ٹھاک کا آغاز اپنے گھر سے کرے گا؟
لیکن آخر شیدا قلعی گر کرے بھی تو کیا کرے؟ پاکستان میں یہی تو چلتا ہے، یوں ہی تو چلتا ہے۔
کوئی بھی شعبہ اٹھا کر دیکھ لیں۔ کئی پیتل، تانبے، لوہے کے برتن ملیں گے۔ کچھ خالی، کچھ بھرے ہوئے۔ کئی چمکتے دمکتے، نوے نکور جن کی حال ہی میں قلعی ہوئی ہوگی۔ کچھ پر ابھی تک سیاہی جمی ہوگی۔ پاکستان کی سیاست ہو یا معیشت، کام انہی برتنوں سے نکلوایا جاتا ہے۔
عمران خان بھی ان برتنوں سے پیچھا نہ چھڑوا سکے۔ کئی چمچے،کئی کڑچھے، کئی گڑوے، کئی لوٹے ان کے اردگرد اکھٹے ہو گئے۔ دعویٰ تو کیا تھا خان صاحب نے ’نیا پاکستان‘ بنانے کا، لیکن فی الحال پرانے، ناکارہ، کالے برتنوں کو ہی قلعی کرا کے، نوا نکور بنا کے کام چلا لیا گیا۔
سیاست کا ’نیا پاکستان‘ تو گزشتہ سال 25 جولائی کو ڈاؤن لوڈ کرلیا گیا تھا لیکن معاشی طور پر ’نیا پاکستان‘ تقربیاً ایک سال ہونے کو ہے، ابھی تک نہ بن سکا۔ جب کچھ کارگر نہ ہوا تو پرانے اور منجھے ہوئے قلعی گرنے پرانا گُر ہی آزمایا۔
پرانے برتنوں کو قلعی کرا کے نیا رنگ روپ تو دلوا دیا لیکن برتن چونکہ بے پیندے ہیں، سو فی الحال تو لڑھک رہے ہیں اور ساتھ ہی معیشت کو بھی لڑھکا رہے ہیں۔
شیدے قلعی گر کو اب کچھ اور کرنا ہو گا۔ کچھ اور سوچنا ہوگا۔ گھروں کی صفائی کرنی ہے اور اپنی کمائی کرنی ہے تو نئے اوزار اپنانے ہوں گے! اپنے ساتھ کے دیگر ماہر کاریگروں کے ساتھ بیٹھنا ہو گا یا انہیں اپنے ساتھ بٹھانا ہوگا۔ مشورہ کرنا ہوگا۔ نئی تکنیک اختیار کرنی ہوگی۔ آزمودہ طریقے اپنانے ہوں گے۔
اس سے پہلے کہ پرائے محلے کا کوئی اور قلعی گر اپنی دکان چمکانے ہماری گلی میں آکر صدا لگائے: ’بھانڈے قلعی کرالو۔۔۔‘