افغانستان سے فوج پر حملہ: ’ایسے واقعات ناقابل قبول ہیں‘

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے افغانستان سے عسکریت پسندوں کی فائرنگ کے نتیجے میں شمالی وزیرستان میں تین پاکستانی فوجیوں کے جانی نقصان کی شدید مذمت کی ہے۔

پاکستانی فوج کے سپاہی 27 جنوری 2019 کو پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر واقع شمالی وزیرستان کے ایک قصبے غلام خان میں سرحدی ٹرمینل پر پہرہ دے رہے ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ خان نے افغانستان سے فائرنگ کے نتیجے میں پاکستانی فوج کے جانی نقصان کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایسے واقعات ناقابل قبول ہیں اور ان کی روک تھام کے لیے فوری اقدامات لینے کی ضرورت ہے۔

پاکستانی فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ہفتے کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ افغانستان سے عسکریت پسندوں نے رات کو شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوجی چوکی پر بھاری ہتھیاروں سے فائرنگ کی، جس کے نتیجے میں فوج کے تین اہلکار جان سے گئے۔

بیان میں میں کہا گیا کہ پاکستانی فوجی چوکی پر فائرنگ کے جواب میں کی جانے والی فائرنگ میں متعدد عسکریت پسند مارے گئے۔

وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے وطن کی خاطر جان دینے والے سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے مزید کہا کہ ’وطن کی حفاظت کی خاطر کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے۔‘

پاکستانی دفتر خارجہ نے بھی اتوار (17 اپریل) کو اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان اور افغانستان کی سرحد پر پُرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے، جن میں پاکستانی سکیورٹی فورسز کو سرحد پار سے نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

اپنے بیان میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان عاصم افتخار نے کہا تھا کہ ’پاکستان نے گذشتہ چند ماہ میں بارہا افغان حکومت سے پاک افغان سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانے کی درخواست کی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’دہشت گرد مکمل استثنیٰ (آزادی) سے افغان سرزمین کا استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا تھا کہ ’رواں برس 14 اپریل کو افغانستان سے احکامات حاصل کرنے والے دہشت گردوں کے ہاتھوں شمالی وزیرستان میں پاکستان فوج کے سات سپاہی جان سے جا چکے ہیں۔‘

شمالی وزیرستان میں سرحد پار سے فائرنگ کا یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب افغانستان میں حالیہ دنوں میں پے در پے دھماکے ہوئے ہیں۔ شمالی صوبہ قندوز میں جمعے کو ایک مسجد پر بم حملے سے ملحقہ مدرسے کے متعدد طلبہ سمیت 33 افراد چل بسے تھے۔

افغانستان اور پاکستان میں حملوں میں تیزی سے ہونے والے اضافے سے ظاہر ہوتا ہے کہ افغانستان میں حکمران طالبان کو سلامتی کے بڑھتے ہوئے مسائل کا سامنا ہے۔ طالبان نے 20 سالہ جنگ کے اختتام پر امریکی اور نیٹو افواج کے افغانستان سے انخلا کے بعد گذشتہ برس اگست میں اقتدار سنبھالا ہے۔

اگرچہ طالبان کے 1990 کے دور حکومت کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تاہم سکیورٹی کے حوالے سے ان کے سخت نقطہ نظر کے پیش نظر جلد بہتری کی توقعات پیدا ہوئیں۔

تاہم افغانستان میں حالیہ پے در پے حملوں اور پاکستان میں بڑھتے ہوئے حملوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی تنظیم داعش خراسان طالبان کے لیے ایسا مسئلہ ثابت ہو رہی ہے جس پر قابو پانا مشکل ہو رہا ہے۔ داعش نے جمعرات کو افغانستان بھر میں ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کی، جن میں زیادہ زیادہ شیعہ برداری کو نشانہ بنایا گیا۔

اس کے باوجود داعش جو افغانستان کے طالبان حکمرانوں کی دشمن ہے، ملک میں واحد عسکریت پسند تنظیم نہیں جو طالبان کو سکیورٹی کے مسائل سے دوچار کرنے میں کردار ادا کر رہی ہے۔

دوسری جانب تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بارے میں اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود اس کے ارکان کی تعداد 10 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ اس عسکریت پسند تنظیم نے افغانستان میں موجود اپنے ٹھکانوں سے سرحد پر قائم پاکستانی فوجی چوکیوں پر حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔ حتیٰ کہ داعش خراسان نے بھی بعض ایسے حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے جن میں پاکستانی فوجیوں کو ہدف بنایا گیا، جس سے پاکستان اور افغانستان کے تعلقات کو نقصان پہنچا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان