کراچی کے علاقے الفلاح سے دو ہفتے قبل پراسرار حالات میں لاپتہ ہونے والی دعا کاظمی کا ایک مبینہ نکاح نامہ منظر عام پر آیا ہے جس کے بعد سوشل میڈیا پر ایک بحث چھڑ گئی ہے۔
کچھ لوگوں کے خیال میں یہ نکاح نامہ اگر درست ہے اور دعا کاظمی نے اپنی مرضی سے شادی کی ہے تو یہ اس معاملے کا ڈراپ سین ہے۔ جبکہ بہت سے لوگ، جن میں لڑکی کے والدین بھی شامل ہیں، نہ صرف یہ کہ مبینہ نکاح نامے کو مشکوک قرار دیتے ہیں، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کا یہ کہنا بھی ہے کہ دعا کاظمی کی عمر ابھی نکاح کی قانونی حد کو نہیں پہنچی لہٰذا اس قسم کی کوئی بھی دستاویز اغوا کے جرم کی سنگینی کو کم نہیں کر سکتی، چاہے اس میں مبینہ طور پر اغوا ہو جانے والی دعا کاظمی کی اپنی مرضی ہی کیوں نہ شامل ہو۔
لڑکے اور لڑکی کی کم ازکم عمر نکاح کے وقت کتنی ہونی چاہیے اور اس اس سلسلے میں قانون کیا کہتا ہے؟
آئین میں اٹھارویں ترمیم کے بعد سے نکاح اور طلاق پر قانون سازی کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس ہے۔ البتہ سندھ کے سوا باقی تمام صوبوں میں اب تک نئی قانون سازی نہیں کی گئی۔
سندھ میں 2013 سے نافذ العمل قانون کے مطابق شادی کے لیے لڑکے اور لڑکی کی عمر کم از کم 18 برس ہونا ضروری ہے اور اس سے کم عمر کی شادی کو قانون نہ صرف یہ کہ تسلیم نہیں کرتا بلکہ یہ قابل تعزیر جرم بھی ہے۔
پنجاب سمیت پاکستان کے باقی تین صوبوں اور وفاقی دارالحکومت میں ابھی تک برطانوی نو آبادیاتی دور میں نافذ کیا گیا قانون ’امتناع ازدواج طفلاں مجریہ 1929‘ نافذ ہے جس کے مطابق شادی کے وقت لڑکی کی کم ازکم عمر 16 برس ہونی چاہیے، بصورت دیگر یہ ایک قابل تعزیر جرم ہے۔
کم عمری کی شادی کے لیے عمر کا تعین کیسے ہو گا؟
دعا کاظمی کے سوشل میڈیا پر گردش کرتے مبینہ نکاح نامے میں لڑکی کی عمر 18 سال لکھی گئی ہے۔ اگرچہ اس نکاح نامے کی تصدیق ہونا ابھی باقی ہے مگر لڑکی کے والدین کا موقف ہے کہ لڑکی پیدائش کے سرٹیفکیٹ (ب فارم) کے مطابق ابھی 14 برس سے کم ہے۔ اس بابت کچھ لوگوں کی طرف لاہور ہائی کورٹ کے ایک حالیہ فیصلے کے حوالے سے یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ مذکورہ لڑکی چونکہ تصاویر میں بھی 14 برس سے زیادہ کی لگتی ہے لہٰذا طبی معائنے سے لڑکی کی بلوغت کا تعین بھی کیا جا سکتا ہے اور اگر لڑکی بلوغت کی حدود میں داخل ہو چکی ہے تو دو بالغ افراد کے مابین ایسا نکاح قانونی طور پر درست ہے۔
اس دلیل میں زیادہ وزن نہیں۔ قانون میں عمر کا تعین پیدائش کے سرٹیفکیٹ یعنی ب فارم یا پھر تعلیمی ریکارڈ سے ہوتا ہے جبکہ قانون میں بظاہر شادی کی اہلیت کا تعلق عمر سے رکھا گیا ہے نہ کہ بلوغت سے۔ صرف ایسی صورت میں کہ جہاں عمر کا تعین کرنے کے لیے کاغذات موجود نہ ہوں یا پھر ریکارڈ میں دو ایسی تواریخ پیدائش کا اندراج ہو جن میں واضح فرق بھی ہو تو عدالت طبی معائنے کا حکم بھی دے سکتی ہے ورنہ قابل اعتماد سرکاری کاغذات عمر اور شادی کے حوالے سے کمسنی کے تعین کرنے کے لیے کافی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے چند ہفتے قبل جسٹس عامر فاروق کی طرف سے ایک اہم فیصلہ سامنے آیا ہے۔ فیصلے میں حکومت کو شادی کی کم ازکم عمر کے حوالے سے قانون سازی کرنے کی جو ہدایات دی گئی ہیں ان میں فقہی مباحث اور نصوص کی روشنی میں شادی کی اہلیت بلوغت کی بجائے سن رشد کو قرار دیتے ہوئے 18 برس سے کم عمر لڑکے یا لڑکی کی شادی کو غیر موثر قرار دیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو اس سے پہلے کے عدالتی فیصلوں میں نہیں ملتی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کم سنی کی شادی کو عدالتوں کی طرف سے جرم کے طور پر تو تسلیم کیا گیا مگر جرم ہونے کے باوجود شادی کے معاہدے کی قانونی حیثیت پر عدالتوں نے رائے زنی نہیں کی۔ اگرچہ اٹھارویں ترمیم کے بعد اس فیصلے کا اطلاق صرف اور صرف اسلام آباد فیڈرل کیپٹل ٹیرٹری کی حدود میں ہی ہو گا مگر یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس فیصلے سے مستقبل میں باقی صوبوں کی اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے اس اہم نکتے پر مزید پیش رفت ہونے کی توقع ہے۔
کم عمری کی شادی، سزا کیا ہے؟
سندھ کے سوا پاکستان بھر میں رائج امتناع ازدواج طفلاں مجریہ 1929 کے قانون کے مطابق کم عمری کی شادی کرنے والے والدین یا سرپرست یا 18 سال سے زیادہ عمر کے دلہا کو ایک ماہ قید یا ایک ہزار روپے جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ پنجاب میں ایک ترمیم کے ذریعے مارچ 2015 میں اس سزا کو بڑھا کر چھ ماہ قید اور 50 ہزار روپیہ جرمانہ کر دیا گیا تھا۔
سندھ میں 2013 سے امتناع ازدواج طفلاں مجریہ 1929 کے قانون کو ختم کر کے نیا قانون نافذ کیا گیا۔ سندھ میں نافذ العمل قانون کے مطابق کمسنی کی شادی پر والدین سرپرستوں اور معاونین کو تین سال تک قید اور جرمانے کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ 1929 کے پرانے قانون کے برعکس، جہاں اس جرم کے خلاف استغاثہ صرف اور صرف متعلقہ یونین کونسل یا صوبائی حکومت کا مجاز افسر دائر کر سکتا ہے، سندھ کے نئے قانون کے مطابق کمسنی کی شادی کو نہ صرف قابل دست اندازی پولیس جرم قرار دیا گیا ہے بلکہ یہ ناقابل ضمانت اور ناقابل راضی نامہ بھی ہے۔
قانون کے سخت ہونے کی وجہ سے ہی ماضی قریب میں سندھ میں ایسے واقعات میں کمی دیکھنے کو آئی اور سندھ میں قابل لحاظ آبادی رکھنے والی اقلیتی برادری کی لڑکیوں کی تبدیلی مذہب اور شادی کے واقعات میں بھی نکاح کا انعقاد سندھ میں رائج قانون سے بچنے کے لیے پنجاب کی حدود میں آ کر کیا گیا۔
پوری دنیا میں 18 برس سے کم عمر بچے بچیوں کے حوالے سے قوانین میں بہت زیادہ تبدیلی آئی ہے۔ 18 سال سے کم عمر شخص کے لیے قانون تمام اہم معاملات میں والدین کو رہنمائی اور فیصلہ سازی کا حق دیتا ہے کیونکہ ایسا شخص قانونا صاحب الرائے تصور نہیں ہوتا۔ بدقسمتی ہمارے ہاں کم سن لڑکیوں کی والدین کی مرضی یا مشورے کے بغیر شادی کو اس زاویے سے نہیں دیکھا گیا جس کی وجہ سے ابھی تک 97 برس پرانا قانون مذہبی حلقوں کے دباؤ کی وجہ سے قانون سازوں کی سیاسی منشاء حاصل کرنے میں ناکام ہے۔