گذشتہ بدھ سوات کی تحصیل خوازہ خیلہ میں دو خاندانوں کے درمیان خاندانی دشمنی کو صلح میں بدلنے کے لیے چھ سالہ بچی کو ’سوارہ‘ میں دینے کے لیے جرگہ جاری تھا کہ اسی اثنا میں پولیس کو اطلاع دے دی گئی، جنہوں نے جرگے پر چھاپہ مارکے 12 افراد کو موقعے پر گرفتار کر لیا۔
خوزہ خیلہ میں واقع خورشید خان شہید پولیس سٹیشن کے محرر عبدالحق نے انڈپینڈنٹ اردو کو تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ معززینِ علاقہ نے ان کے تھانے کو خفیہ اطلاع دی، جس کے بعد پولیس نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے چھ سالہ بچی کا نکاح روک دیا اور اس کو ’سوارہ‘ میں جانے سے بچا لیا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ اس عمل میں شریک 13 افراد کو گرفتار کیا جاچکا ہے، جن میں نکاح خواں سمیت بچی کے والد بھی شامل ہیں، جب کہ باقی چار افراد کی تلاش تاحال جاری ہے۔
خورشید خان شہید تھانے کے مطابق سوارہ سے بچا جانے والی چھ سالہ بچی کو ضمانت کے طور پر چچا کے حوالے کر دیا گیا ہے اور ملزمان کے خلاف دفعہ 310 اے اور سی پی اے 39 کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
سوات کے مقامی صحافی رفیع اللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ یہ واقعہ سوات کی دورافتادہ تحصیل خوازہ خیلہ کے مقام ڈھیری بابا میں پیش آیا ہے، جو مینگورہ سے 32 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک پہاڑی علاقہ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اس غیر قانونی واقعے کی ایک بڑی وجہ شہریوں کی قوانینِ پاکستان سے لاعلمی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رفیع اللہ نے بتایا کہ مذکورہ چھ سالہ بچی کے چچا زاد بھائی نے ایک لڑکی سے پسند کی شادی کی تھی، جس کے بعد معاملہ دو خاندانوں کے مابین قتل کی دھمکیوں تک جا پہنچا۔ رفیع اللہ نے کہا کہ ان کی اطلاع کے مطابق اس دشمنی کا حل ڈھونڈنے کے لیے ’سوارہ‘ رسم کا سہارا لیا گیا اور جرگے میں صلح کی غرض سے خطاکار سمجھنے جانے والے لڑکے کی چھ سالہ چچازاد بہن کی دشمن خاندان کے 16 سالہ لڑکے سے شادی کا فیصلہ طے ہوا۔
ضلع سوات میں اس طرح کے واقعات اس سے قبل بھی پیش آتے رہے ہیں، تاہم 2021 میں رونما ہونے والا یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے۔
2003 میں سوات کے مختلف علاقوں سے ’سوارہ‘ کے چھ کیسز، جب کہ 2013 میں پانچ کیسز رپورٹ ہوئے تھے، جن کے متاثرین میں دو کم سن بچیاں بھی شامل تھیں۔
حقوق نسواں کے حوالے سے کام کرنے والی سماجی کارکن شاد بیگم نے اس واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اس طرح کے واقعات کا بار بار سامنے آنا اس بات کی دلیل ہے کہ چائلڈ پروٹیکشن اور خواتین کے تحفظ کے حوالے سے بنائے گئے قوانین پر سختی سے عمل درآمد نہیں ہورہا۔
دوسری جانب خیبر پختونخوا کے چائلڈ ایکٹیوسٹ عمران ٹکر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اس طرح کے واقعات کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر قوانین موجود ہیں اور اب ہر سطح پر شعور میں بہت حد تک اضافہ ہوا ہے۔ ’یہی وجہ ہے کہ اب سال میں ایک آدھ ایسا کیس سامنے آتا ہے، جس کا سدباب کیا جارہا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ قانون تحفظ اطفال میں دفعہ 39 کے تحت بچوں پر ظلم وجبر کے کیس دیکھے جاتے ہیں جن کے مرتکب افراد کے لیے مختلف سزائیں مقرر کی گئی ہیں۔
سوارہ کا مطلب کیا ہے؟
سوارہ پاکستان میں پائی جانے والی ایک رسم ہے جس میں خاندانی دشمنی کو دوستی میں بدلنے کے لیے گھر کی غیر شادی شدہ لڑکی کو اس کی مرضی کے خلاف دشمن خاندان میں بیاہ دیا جاتا ہے۔
سوارہ کی رسم کا استعمال جن مواقع پر کیا جاتا ہے، ان میں زیادہ تر قتل، زنا، اغوا یا اس قسم کے دیگر جرائم شامل ہیں۔
پاکستان میں 2004 کے دوران فوجداری قانون میں ایک ترمیمی بل پیش کیا گیا تھا، جس کے مطابق پاکستان کے کوڈ آف کریمنل پروسیجر اور پاکستان پینل کوڈ میں ترامیم کی گئی تھیں۔ اسی ترمیم کے تحت دفعہ 310 اے میں کسی بھی خاتون/لڑکی کو صلح کی خاطر بیاہ دینا قابل سزا جرم قرار دیا گیا تھا۔
2011 میں دوبارہ ترمیم کرکے اسے ’پریوینشن آف اینٹی ویمن پریکٹیسز‘ کا نام دیا گیا، جس کے مطابق خواتین کی’بدلِ صلح‘ ونی یا سوارہ کی شکل میں شادی جرم قرار دی گئی، جس کی سزا کم سے کم تین سال اور زیادہ سے زیادہ سات سال مقرر کی گئی ہے۔
علاوہ ازیں، جرم ثابت ہونے کی صورت میں قید سمیت پانچ لاکھ جرمانہ بھی عائد کیا جا سکتا ہے۔