سوشل میڈیا پر جاتے ہوئے محتاط رہیں۔ آپ کسی بھی لمحے غدار اور ملک دشمن قرار دیے جا سکتے ہیں۔ مذہب، عقیدے اور فرقے کے بعد اب سماجی تقسیم کا عمل انتہائی بیانیوں کی بنیاد پر ہے۔
انہی رویوں میں ایک ’انتہائی حب الوطنی‘ کا بیانیہ بھی ہے۔ یہ وطن پرستی کا وہ درجہ ہے جس میں حقائق سے نظریں چرا کر قومی عظمت کی تخیلاتی دنیا بسا لی جاتی ہے۔ اپنے ملک کی کمزوریوں کا تذکرہ بھی جرم سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں ہائپر نیشنلزم کی ترویج میں سب سے زیادہ کردار سوشل میڈیا کا ہے۔ حب الوطنی کے جذبات کو ہوا دینے کے لیے سوشل میڈیا پر جھوٹ کو سچ بنا کر ایسی مہارت سے پیش کیا جا رہا ہے کہ پورا معاشرہ اس وقت وطن سے محبت کی درجہ بندیوں میں الجھا ہوا ہے۔ وطن پرستی کی اس نئی جہت کا آغاز ’ففتھ جنریشن وار‘ کے نام نہاد سپاہیوں کی بھرتی سے ہوا تھا۔
جن کا کام ایسے لوگوں کو غدار ثابت کرنا تھا جو اس ملک کے نظام اور اداروں کی غلطیوں کی نشاندہی کرتے تھے۔ یہ سپاہی سوشل میڈیا پر برائی کی طرح پھیل گئے دیکھتے دیکھتے ہی غداری کے سرٹیفیکیٹ بانٹنا فیشن بن گیا۔
اس سپاہ کا سالار تو بدل گیا مگر سپاہی ابھی بھی اپنے ہی لوگوں پر بندوقیں تانے غداری اور ملک دشمنی کے فتوے سنا رہے ہیں۔ اب ان سوشل میڈیا کے شاہینوں کو مختلف سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی صفوں میں بھرتی کر لیا ہے۔ اب یہ قومی سلامتی، قومی غیرت کے بعد قومی لیڈر کو ماننے یا نہ ماننے کی بنیاد پر بھی لوگوں کو غدار قرار دیتے ہیں۔
ففتھ جنریشن وار کے نام پر حب الوطنی کے تخلیق کاروں نے ملک کے ساتھ وفاداری کے نئے اصول وضع کیے ہیں۔ بنیادی طور پر کرائے پر رکھی گئی اس ٹرولز فوج نے اپنی پروفائل میں مارخور کی تصویر لگائی، خود کو محب وطن پاکستانی کہا اور اس کے ساتھ ہی دوسروں کی حب الوطنی کے بخیے ادھڑنے شروع کر دیے۔
ان سپاہیوں نے سوشل میڈیا پروفائل میں پاکستانی جھنڈے، مارخور کی تصویر کے ساتھ آئی بلیڈ گرین، پاکستان آرمی زندہ باد، آئی لو مائی آرمی لکھ کر ’حب الوطنی‘ پر اپنی اجارہ داری کا اعلان کر دیا۔ اب یہ ٹرولز ہر دن اختلاف رائے پر، سیاسی وابستگی اور کسی بیانیے کو مسترد کرنے کے جرم میں کئی پاکستانیوں کو غدار اور ملک دشمن قرار دیتے ہیں۔
وطن سے محبت فطری ہے لیکن کیا اس محبت کا اظہار ہر وقت کرنا ضروری ہے؟ ایک خاص انداز میں ملک سے وفاداری کا اظہار کرنا ضروری ہے؟ یا کسی دوسرے فرد کے تقاضے پر وطن سے محبت کا ثبوت دینا لازم ہے؟
سوشل میڈیا پر ایک فوج ہے جو ہر معاملے پر لوگوں کی رائے کو جذبہ حب الوطنی کے پلڑے میں تولتی ہے۔ ان کی اپنی ہی عدالت ہے اور یہ فیصلے کے ساتھ ہی کی بورڈز پر بیٹھ کر کسی بھی شخص کی مٹی پلید کر سکتے ہیں نا ان سے سوال کیا جا سکتا ہے نہ ان تک رسائی آسان ہے۔ یہ سپاہی جھوٹ کو سچ بنا کر پیش کرنے کی تربیت کے ماہر پھر وہ اپنا تیار کردہ سچ دوسروں پر مسلط کرنے کے ہنر سے بھی واقف ہیں جہاں کوئی اس تسلط پر آواز اٹھاتا ہے اس کے خلاف ایک ٹرینڈ چلا کر یہ فوج اسے غدار ثابت کر دیتی ہے۔
اگرکوئی عام شہری یا صحافی ملک میں کسی مسئلے کی طرف نشاندہی کریں تو ان پر ملک کو بدنام کرنے کا الزام لگا دیا جاتا ہے۔ ملک کی تاریخ جغرافیہ یا زمینی حقائق کچھ بھی کہیں ہائپر نیشنلسٹس نے پاکستان کو دنیا کا سب سے اہم اور طاقت ور ملک ثابت کرنا ہے۔ دلیل اور منطق کے لیے سوشل میڈیا نو گو ایریا بنتا جا رہا ہے۔
یہ طے کرنا ایک مشکل امر ہے کہ سوشل میڈیا پر منافرت، شدت، عدم برداشت، غصہ اور انتہا پسندی سماج کی عکاسی ہے یا سوشل میڈیا سے یہ سب بیماریاں سماج میں تحلیل ہو رہی ہیں۔ اس کا سائنسی تجزیہ کیا جائے تو یہ دو طرفہ معاملہ نکلے گا۔ نتیجے کے طور پر ایک پریشر ککر زور زور سے سیٹی بجا رہا ہے یہ پریشر ککر کبھی بھی پھٹ سکتا ہے۔
آج پاکستان ایسی انتہاؤں میں تقسیم ہو رہا ہے۔ جن کے درمیان حائل خلیج اتنی گہری ہے کہ ایک سرے سے آواز دوسرے تک پہنچانا ممکن نہیں رہا۔
اگرحالیہ سازش اور مداخلت کی تشریحات کے معاملے پر سوشل میڈیا پر ہونے والی بحث کو دیکھا جائے تو واضح نظر آتا ہے کہ بات انتہائی تفریق اور تقسیم پر پہنچ چکی ہے۔ ’ادھر ہم اُدھر تم‘ والا سین ہے۔
پاکستانی معاشرہ کبھی بھی مثالی ہم آہنگی کا حامل نہیں تھا مگر اختلاف اور تفرقے کے باوجود سماج میں ایک ربط اور تعلق کی گنجائش تھی۔ اختلاف کے ساتھ بات کرنے کی خواہش موجود تھی۔
پاکستان کی سیاست بھی آج کل ہائپر نیشنلزم کے گرد گھوم رہی ہے۔ سازش اور مداخلت کے معاملے پر انتہائی حب الوطنی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ جو سازش کے بیانیے کے حامی ہیں وہ محب وطن ہیں اور جو اس پر سوال اٹھا رہے ہیں ان پر قومی حمیت کا سودا کرنے کا الزام لگایا جا رہا ہے۔
عمران خان کی سیاست کا محور بھی اس وقت ہائپر نیشنلزم ہے۔ ملکی سالمیت، قومی حمیت اور خودداری کا پرچار کرتے ہوئے عمران خان اور ان کے چاہنے والے کسی منطق، دلیل میں دلچسپی نہیں رکھتے۔ ان کی خیالی دنیا میں پاکستان اسلام کا قلعہ ہے اور ایک ایسا ملک ہے جس کی ترقی سے ساری دنیا ڈرتی ہے۔ عالمی طاقتیں پاکستان کی ترقی کو روکنے کے لیے سازش کرنے پر مجبور ہیں۔ ترقی کے پیمانے اور اعشاریے بتانے کے لیے سچی جھوٹی ہر وہ بات جو قومی عظمت کی خیالی دنیا کی توثیق کرتی ہے وہ دھڑلے سے پیش کی جا رہی ہے۔
موجودہ سیاسی بحران میں ہائپر نیشنلزم کا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے۔ یہ وائرس سماج میں انتہا پسندی کے ساتھ ساتھ عدم برداشت اور جھوٹ کے جراثیم پیدا کر رہا ہے۔ نوجوانوں کو ملک سے محبت کی وہ ویکسین لگائی جا رہی ہے جو ان کو بےعملی کی طرف دھکیل رہی ہے۔ وہ معاشرے کی اجتماعی کوتاہیوں کا سارا غصہ بیرونی قوتوں پر ڈال کر خوش ہیں۔
وہ سمجھتے ہیں کہ اگر وہ دنیا کو آنکھیں دکھائیں گے تو وہ عظیم مملکت بن جائیں گے۔ پاکستان کے نوجوانوں کو دھوکہ دیا جا رہا ہے۔
ففتھ جنریشن وار کے نام پر ان کی ملک سے محبت کے ساتھ کھلواڑ کیا جا رہا ہے۔ ان کو دنیا کے سامنے نہ جھکنے کا درس دینے والے یہ نہیں بتا رہے کہ محنت کرنے سے عظمت ملتی ہے سچ بولنے سے دنیا آپ کی عزت کرتی ہے۔ ان نوجوانوں کو راہبر یہ بھی نہیں بتا رہا کہ برداشت کرنے سے گفتگو کرنے سے معاشروں میں بہتری آتی ہے۔
عمران خان بخوبی جانتے ہیں کہ جنگجوئی کو دنیا ترک کر چکی ہے اور علم، سائنس، منطق اور عمل سے قومیں ترقی کرتی ہیں۔ مگر اس وقت ان کی سیاسی بقا اسی تخیلاتی بیانیے میں جس میں پاکستان سے عظیم کچھ نہیں ہے۔
حب الوطنی کو اطاعت کل سے مشروط کرنا ایک سنگین غلطی ہے۔ ہر فرد کی وطن سے محبت اور اس کا اظہار فطری ہوتا ہے ملک کو کوئی اعزاز ملے اس کے باسیوں کے اندر خوشی، فخر اور جوش کے ایسے جذبات امڈتے ہیں جن کو زبان دینا مشکل ہے۔ اسی طرح جب وطن پر کوئی قیامت ٹوٹتی ہے تو ایک ذاتی دکھ کی کیفیت طاری رہتی ہے۔
تاریخی طور پر مختلف ادوار میں پاکستان میں حکومتوں کے ناقد اور سماجی اقدار سے بغاوت کرنے والوں کو باغی یا غدار کہا جاتا تھا مگر اجتماعی طور پر عام پاکستانی ایک دوسرے کو محب وطن ہی سمجھتے تھے۔ چند سالوں سے عجب رسم چل نکلی ہے کہ اختلاف رائے پر بھی دوسروں کو ملک کا غدار کہا جانے لگا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جس لیبارٹری میں اس ہائپر نیشنلزم کے وائرس کی نشو و نما کی گئی وہ لیبارٹری بھی اس کا توڑ ڈھونڈنے میں ناکام نظر آتی ہے۔
آج اگر حب الوطنی کے ایک سانچے میں دوسروں کو ڈھالنے کی روش کو نہ روکا گیا تو کل ہر گلی ہر گھر میں غدار اور وفادار کی تقسیم ہو گی۔ کیا ہم اپنے آج کی مقبولیت اور شہرت کے لیے اپنے کل کو جہنم بنانے کے لیے تیار ہیں؟ فیصلہ مشکل تو نہیں۔