اس سے پہلے کہ میں اپنی مقامی سرکار کا احوال بیان کروں جو جموں و کشمیر میں دلی کے تابع ہے، میں یہ باور کرانا چاہتی ہوں کہ ہماری ایک سرکار نہیں ہے بلکہ کئی سرکاریں ہمارے ذہنوں پر مسلط ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے لیے بھلے ہی تقسیم ہند کے بعد ایک سرکار رہی ہو مگر جنت بے نظیر میں ان ملکوں کی مہربانیوں سے کئی سرکاریں ہیں، جن کے ہاتھوں میں ہماری زندگی کا ریموٹ کنٹرول ہے۔
اگر ایک سرکار کو محض بیانات دے کر کشمیریوں کو ڈرانا ہے تو دوسری ہڑتال کرانے پر مامور ہے۔ تیسری سرکار اگر ہمیں مرواتی ہے تو چوتھی سرکار بات چیت میں قید کرا کے ہمیں دفن بھی کرتی ہے۔ پھر کوئی سرکار سات سمندر پار سے دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرکے ہمارے قتل کا سرٹیفیکیٹ جاری کرتی ہے۔ گذشتہ سات دہائیوں پر محیط یہ سلسلہ ہمارا حاصل ہے، جس میں قتل اور انکاؤنٹر میں مارے جانے والے یا لاپتہ ہونے والے ایک لاکھ سے زائد افراد کی انویسٹمنٹ کی گئی ہے۔
پاکستان کے نیوزی لینڈ سے کرکٹ میچ جیتنے کی جتنی خوشی کشمیریوں کو ہوئی ہے، اس سے زیادہ اب ان کو مملکت خداداد کی یو ٹرن سیاسی پالیسیوں نے خوف زدہ کردیا ہے۔ اب وہ چاہے بھارتی سرکار کو پلوامہ طرز کے حملے سے خبردار کرنا ہو یا اقوام متحدہ میں بھارت کی رکنیت کی طرفداری کا معاملہ ہو۔
گو کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان پائی جانے والی تلخی کا زہر کشمیری سات دہائیوں سے پی رہے ہیں اور یہ زہر ان کے بدن میں اب لاوے کی شکل اختیار کرچکا ہے، تاہم وہ دونوں کے بیچ دوستی کی فضا قائم ہونے کی دعائیں مانگتے رہتے ہیں لیکن اگر یہ دوستی کشمیر کو قبرستان بنانے کے بعد قائم ہوتی ہے تو ’بدلے بدلے سے میرے سرکار‘ کا یہ فتویٰ بھی عنقریب جاری ہوگا کہ بدلتی ہواؤں پر ماتم کرنا توہین مملکت ہے۔
بقول ایک کشمیری دانشور ’عمران خان ملک کا بجٹ پاس کرانے پر توجہ مرکوز کرتے تو ہم پر بڑی عنایت ہوتی لیکن وہ جس طرح مودی سے بات چیت کے لیے اپنی تڑپ ظاہر کر رہے ہیں، اس سے عیاں ہے کہ ان کے ملک میں حالات انتہائی ابتر ہیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ وہ کہیں اب پاکستان کے زیرِ اتنظام کشمیر کو خود ہی مودی کے حوالے نہ کریں۔‘
مودی سرکار نے انتخابات کے مکمل ہونے تک کشمیر یا کشمیریوں کے ساتھ بات نہ کرنے کی قسم کھائی تھی اور کشمیریوں نے بھی ٹھان لی تھی کہ آزادی کے حصول تک پیچھے نہیں ہٹیں گے مگر اب لگتا ہے کہ پہاڑوں پر برف پگھلنے کا موسم شروع ہو گیا ہے۔
مودی کے دوسری بار اقتدار میں آنے کے بعد کشمیر کی فضاؤں میں کچھ بدلی بدلی سی ہوا محسوس کی جارہی ہے جو بہت سی نئی دلیلوں کو جنم دے رہا ہے۔ بھارتی وزیر داخلہ امیت شاہ کا پہلی بار کشمیر آنا، حریت کانفرنس کا ہڑتال کی اپیل نہ کرنا اور گورنر ستیہ پال ملک کا حریت کی بات چیت کی خواہش ظاہر کرنے کا اعلان کرنا، بہت کچھ ہونے کا عندیہ دے رہا ہے۔
جب سوشل میڈیا نے اس خبر کی تشہیر کردی کہ پاکستان نے اقوام متحدہ میں بھارت کی رکنیت کی حمایت کی ہے تو کشمیر کی مسجدوں، گلی کوچوں یا پارکوں میں بیشتر لوگوں کو چہ میگوئیاں کرتے سنا گیا کہ عمران خان کا دماغی توازن ٹھیک ہے یا واقعی بھارت نے پاکستان کا قافیہ اتنا تنگ کروایا ہے کہ وہ کشمیر میں پھیلائے اپنے آنچل کو عجلت میں نچوڑنے لگے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
کچھ نوجوان دل کو بہلانے کے لیے ان خبروں کی تصدیق کے لیے پاکستانی میڈیا کو کھنگالنے لگے اور دل میں دعا پڑھتے رہے کہ یہ خبریں جھوٹی ثابت ہوں، مگر پاکستان میں بدلاؤ کی جھلک دیکھ کر صرف جھٹپٹائے۔
دوسرا دھچکہ اُس وقت لگا جب بھارت کے وزیر داخلہ امیت شاہ وادی کشمیر پدھارے تو روایت کے عین برعکس اپنی ’حریت سرکار‘ نے ہڑتال کی کال نہ دے کر سب کو حیرت میں ڈال دیا۔ کچھ نے کہا کہ یہ تفتیشی ادارے این آئی اے کی تفتیش کا کمال ہے تو کچھ لوگوں نے سٹہ لگایا کہ مودی حکومت اندرونی طور پر چین کی ثالثی سے پاکستان کے ساتھ بات چیت کے لیے راضی ہوگئی ہے جس کی بدولت حریت کانفرنس کو مملکت خداداد سے خاموش رہنے کا حکم صادر ہوا ہے۔
وجہ کچھ بھی ہو مگر لوگوں کی بھنویں اُس وقت تن گئیں جب کسی نے افواہ پھیلائی کہ امیت شاہ اور حریت رہنماؤں کے بیچ ملاقات ہوئی ہے۔ اس کی کسی نے تصدیق نہیں کی اور نہ کبھی ہوگی کیونکہ کشمیر میں کچھ معاملات پر پردہ داری کرنے کی مقبول ترین رسم ہے۔
چند روز پہلے جموں و کشمیر کے گورنر ستیہ پال ملک نے بھی جب اعلان کردیا کہ ’حریت کانفرنس بات چیت کے لیے تیار ہے‘ تو عوام کے ایک بڑے طبقے نے ’بدلے بدلے سے میرے سرکار‘ کا الاپ چھوڑا۔ فوراً میر واعظ کشمیر اور حریت کے رہنما عمر فاروق نے بات چیت کے لیے ہمیشہ خواہش کا اظہار کرنے کا جذبہ دہرایا بلکہ سنا ہے کہ وہ بھی سرکار کے بدلاؤ پر گنگنا رہے تھے البتہ اس بار ان کے گنگنانے میں وہ درد اور خوف نہیں ہے جس کی وجہ شاید پاکستان کی بدلاؤ پالیسی بھی ہے۔
گوکہ امن کے خواہاں کشمیری برصغیر کے بدلتے حالات سے بخوبی واقف ہیں مگر ان کی بَلی چڑھا کر آپسی میل ملاپ پر انہیں جو اذیت پہنچتی ہے اس کا اندازہ شاید کشمیری قوم کے بغیر کوئی نہیں کرسکتا۔
ظاہر ہے کہ حال ہی میں پیدا شدہ ان حالات میں بدلے بدلے سے سرکار کا زہر پی کر وہ پھر سے اپنی نسل کو بچانے کی خاطر ہاتھ پیر مارنے پر مجبور و محکوم نظر آ رہے ہیں۔