الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے سینکڑوں چینل بھارت کے زیر انتظام جموں وکشمیر میں موجود ہیں تاہم ان پر محال ہی ایسی کوئی خبر نشر کی جاتی ہے جو کشمیر کی زمینی صورتحال کی عکاسی کرتی ہو۔ مگر جب سے سوشل میڈیا منظر عام پر آیا ہے کشمیریوں کو جیسے جینے کے لیے آکسیجن مل گئی ہو۔ اس کا استعمال وہ وسیع پیمانے پر اپنے خیالات کے اظہار کے لیے کرتے ہیں۔
جموں و کشمیر کے میڈیا پر بھارتی حکومت کا خاصا دباؤ موجود ہے۔ آزادی سے منسلک مظاہروں یا پروگراموں کو نشر کرنے پر ہمیشہ پابندی رہتی ہے۔ عسکری کارروائیوں کی خبروں کو پولیس کے حوالے سے شائع کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے۔ عسکریت پسندوں یا حریت کانفرنس سے متعلق خبروں کو بڑی مشکل سے بعض اخبار شائع کرتے ہیں لیکن الیکٹرانک میڈیا پر مکمل بلیک آؤٹ اختیار کرنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
جہاں تک بھارتی میڈیا کے کردار کا سوال ہے تو وہ کم و بیش ہندو تنظیم بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کا ترجمان لگتا ہے۔ چاہے کشمیری عسکریت پسندوں کو دہشت گرد قرار دینا ہو یا پاکستان کو سبق سکھانا ہو، حکومت سے زیادہ بھارتی میڈیا خارجہ پالیسی ترتیب دیتا ہے اور جنگی جنون پیدا کرکے اپنی ریٹنگ بڑھاتا رہتا ہے۔
لیکن سوشل میڈیا کی بدولت کشمیریوں کو نہ صرف اپنی بات کہنے کا بلکہ پہنچانے کا بھی ایک بہترین راستہ مل گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کشمیر میں آئے روز انٹرنیٹ پر پابندی لگتی ہے خاص طور پر جب کہیں چھاپے کی کارروائی ہو، سکیورٹی فورسز کا مقابلہ (انکاؤنٹر) چل رہا ہو یا آزادی کے حق میں جلسہ و جلوس ہو۔ مقصد عوام کے لیے خبر کی ترسیل کے تمام ذرائع بند کردینا اور دنیا کو کشمیر کی خبروں سے دور رکھنا ہے۔
مگر ہمیشہ اس کے برعکس ہوتا ہے۔ جب بھی انکاؤنٹر ہوتا ہے سوشل میڈیا پر اس کی خبر آتے ہی فوراً لوگوں کا جمِ غفیر سڑکوں پر نکل آتا ہے اور مظاہروں کو روکنے کے لے سکیورٹی فورسز گولیاں یا پیلٹ کا استعمال کرتی ہیں۔ انٹرنیٹ پر پابندی کے باوجود سوشل میڈیا سے لوگوں کو پل پل کی خبر ملتی رہتی ہے۔
انکاؤنٹر میں شامل نوجوان مقابلہ کرتے ہوئے بھی سوشل میڈیا پر اس کی ساری ایکشن ویڈیو جاری کر دیتے ہیں اور جان دیتے دیتے اپنے والدین سے آخری بار بات کرنے کی ریکارڈنگ بھی نیٹ ورک پر ڈال دیتے ہیں۔ اس پر پولیس نے کئی مرتبہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان ویڈیوز کی بدولت بھی اکثر نوجوان عسکری تحریک میں شامل ہونے کے لے تیار ہوجاتے ہیں۔
سکیورٹی فورسز کی عوام پر ہونے والی مبینہ زیادتیوں کی درجنوں ویڈیوز سوشل میڈیا پر جاری ہوئی ہیں جن میں فاروق ڈار کی وہ ویڈیو بھی شامل ہے جس میں انہیں فوجی گاڑی کے بونٹ سے ہانک دیا گیا تھا اور جس کی وجہ سے عالمی سطح پر بھارتی فوج کی مذمت کی گئی تھی۔
جموں و کشمیر میں فون کی سہولت تقریباً سب کو میسر ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت وادی میں ڈیڑھ کروڑ فون استعمال ہو رہے ہیں جن میں 80 فیصد فون رکھنے والوں کے پاس انٹرنیٹ کنکشن بھی موجود ہے۔
جموں و کشمیر بھارت میں واحد جگہ ہے جہاں سب سے زیادہ لوگ انٹرنیٹ کا استعمال کر رہے ہیں۔ وہ سرکاری پابندیوں کے باوجود انٹرنیٹ سے جڑے ہوتے ہیں۔ چاہے وہ فیس بک ہو، ٹوئٹر ہو یا واٹس ایپ، بلکہ نوجوانوں نے درجنوں نیوز گروپ بنا کر ہر خبر کو شائع کرنے کا بھی بیڑا اٹھایا ہوا ہے حالانکہ پولیس درجنوں لڑکوں کو اس کی پاداش میں گرفتار بھی کر چکی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سکیورٹی فورسز کے حملوں میں ہلاک ہونے والے عسکریت پسند نوجوانوں کے جنازوں کے جلوسوں کی ویڈیوز بھی چند لمحوں میں وائرل ہوجاتی ہیں جن کی خبریں قومی میڈیا پر کبھی دکھائی نہیں جاتیں۔
البتہ انٹرنیٹ پر روز روز کی پابندیوں سے نہ صرف معیشت متاثر ہو رہی ہے بلکہ جموں و کشمیر کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سیاحت بھی بری طرح سے تباہ ہوچکی ہے۔ بندشوں کے باعث طلبہ امتحانات میں شامل نہیں ہو پاتے یا باہر کے تعلیمی اداروں میں وقت پر داخلہ حاصل کرنے سے رہ جاتے ہیں۔ بینکوں کا کام بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور بیشتر نجی تجارتی ادارے جموں منتقل ہوچکے ہیں۔
انٹرنٹ کمپنیوں کو سالِ رواں میں پابندی کے سبب روزانہ ڈھائی کروڑ روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ تاجر برادری نے حال ہی میں حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ حکومت پابندیاں عائد کرکے کشمیریوں کو اجتماعی سزا دے رہی ہے اور معاشی طور پر مفلوج کرکے انہیں اپنے سیاسی حقوق کی جدوجہد سے دستبردار ہونے پر مجبور کر رہی ہے۔
سنہ 90 میں عسکری تحریک کے دوران بی بی سی اردو سروس کا سیربین پروگرام کشمیر کی لائف لائن تصور کیا جاتا تھا جبکہ اِس وقت سوشل میڈیا کے مختلف پلیٹ فارم اس کے متبادل ذرائع بن گئے ہیں اور آئے روز کی پابندیوں کے باوجود ہر پل کی خبریں نہ صرف دنیا کے کونے کونے میں پہنچ جاتی ہیں بلکہ بعض ویڈیوز وائرل ہوکر الیکٹرانک میڈیا کی خبر بھی بن جاتی ہیں۔