ایک خاتون بلوچ عسکریت پسند شاری بلوچ کی طرف سے 26 اپریل کو کراچی یونیورسٹی کے کنفیوشس سینٹر کو نشانہ بنانے والے خودکش حملے نے پاکستان میں بہت سے لوگوں کو حیران کر دیا۔
پاکستان میں بلاشبہ بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے کسی خاتون کے ذریعے خودکش حملے کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ تاہم بلوچ علیحدگی پسندوں کی طرف سے خاتون خودکش بمبار کا استعمال پاکستان کے عسکریت پسندی کے منظرنامے میں کسی نئے مرحلے کے آغاز کو ظاہر کرنے کی بجائے ایک پرانے رجحان کے تسلسل کی نشاندہی کرتا ہے۔
پاکستان میں خواتین کے ذریعے دہشت گردی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کہ دہشت گردی کا رجحان ہے۔ مختلف دہشت گرد نیٹ ورکس جیسے کہ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور داعش خراسان نے خواتین خودکش بمباروں کو پاکستان کے مختلف حصوں میں حملوں کے لیے استعمال کیا ہے۔
خواتین خودکش بمباروں کا استعمال بیک وقت شدت پسند گروہوں کی طاقت اور کمزوری کا اظہار کرتا ہے۔ ایک طرف جب یہ گروہ روایتی دہشت گردی کے طریقوں سے اپنے اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں تو وہ خواتین خودکش بمباروں کو استعمال کرتے ہیں جبکہ دوسری طرف یہ شدت پسند گروہوں سے وابستہ خواتین کارندوں کے اپنے خود ساختہ اہداف اور مقاصد کے لیے اعلیٰ سطح کے عزم اور لگن کو بھی اجاگر کرتا ہے۔
آپریشنل نقطہ نظر سے خودکش دہشت گردی روایتی دہشت گردانہ حملوں کے مقابلے میں 12 گنا زیادہ مہلک ہے اور خواتین کو مردوں کے مقابلے میں زیادہ موثر خودکش بمبار تصور کیا جاتا ہے۔ پاکستان جیسے روایتی مذہبی معاشروں میں جہاں صنفی علیحدگی ایک معمول ہے، خواتین کو ممکنہ طور پر کم سخت حفاظتی چیک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ خواتین عسکریت پسند پرہجوم علاقوں میں مردوں کی بہ نسبت زیادہ آگے تک پہنچ سکتی ہیں۔ یوں خواتین خودکش بمباروں کا استعمال زیادہ مؤثر اور مہلک ہوتا ہے۔
روایتی طور پر یہ فرض کیا جاتا ہے کہ عورتیں اپنے باپ اور شوہر کی فرمانبرداری کے زیرِ اثر خود کش حملے میں ملوث ہوتی ہیں۔ اسی طرح یہ دلیل بھی دی جاتی ہے کہ خواتین اپنے شوہر، باپ، بھائی یا بیٹے کی موت کا بدلہ لینے کے لیے خودکش حملے کی طرف راغب ہوتی ہیں۔
بعض اوقات ریپ یا جنسی حملے بھی خواتین کے لیے خودکش حملے میں حصہ لینے کے لیے ایک طاقتور عنصر ہو سکتے ہیں۔ اس کے برعکس بہت سی خواتین نظریاتی مقاصد کے ساتھ گہری وابستگی رکھتے ہوئے خود کو رضاکارانہ طور پر پیش کرتی ہیں۔ وہ سمجھتی ہیں کہ ان کی نام نہاد قربانی ان کے نظریات کی خدمت کرے گی۔
پاکستان میں کسی خاتون کی طرف سے پہلا خودکش حملہ 2010 میں ریکارڈ کیا گیا تھا جب کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے وابستہ ایک خاتون عسکریت پسند نے قبائلی ضلع باجوڑ میں ورلڈ فوڈ پروگرام کے خوراک کی تقسیم کے مرکز کو نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 45 اموات ہوئی تھیں۔
اسی طرح 2011 میں خیبر پختونخوا کے ضلع ڈیرہ اسماعیل خان میں ایک پولیس سٹیشن کے سامنے میاں بیوی نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ اسی سال ایک خاتون خودکش بمبار نے پشاور میں ایک سکیورٹی چیک پوائنٹ کو نشانہ بنایا۔
2012 میں جماعت اسلامی کے قاضی حسین احمد کو قبائلی ضلع مہمند میں ایک ازبک خاتون خودکش بمبار نے نشانہ بنایا جس میں وہ بال بال بچ گئے۔
2013 میں کوئٹہ میں سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی بس میں ایک خاتون دہشت گرد نے یونیورسٹی کی طالبہ کا روپ دھار کر خودکش حملہ کر کے 25 طالبات کو قتل کر دیا۔
پاکستان میں آخری خودکش حملہ جس میں کوئی خاتون بمبار شامل تھی 2019 میں دیکھا گیا جب ڈی آئی خان میں ایک ہسپتال کو نشانہ بنایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان واقعات کو سامنے رکھا جائے تو حالیہ خود کش حملے میں شاری بلوچ کی شرکت پاکستان میں ایک دہائی پرانے رجحان کے تسلسل کی نمائندگی کرتی ہے۔
بلوچ لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے 2018 میں خودکش حملے کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا شروع کیا۔ مختلف ویڈیوز میں مجید بریگیڈ نے اپنی صفوں میں مرد اور خواتین خودکش حملہ آوروں کی موجودگی کا دعویٰ کیا۔ لہٰذا ان کی طرف سے ایک خاتون خودکش بمبار کا سامنے آنا حیران کن نہیں ہونا چاہیے۔
خواتین کی طرف سے خودکش دہشت گردی کا پتہ لگانا مشکل اور اسے روکنا اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔ خودکش دہشت گردی کی پشت پر کارفرما ترغیبی ڈھانچہ اتنا مضبوط ہے کہ اگر بمبار مطلوبہ ہدف کو نشانہ بناتا ہے تو وہ ایک آئیکون بن جاتا ہےاور اگر وہ ہدف حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے تو بھی شہید سمجھا جاتا ہے۔ خواتین خودکش بمباروں کو نئے رضاکاروں کی بھرتی کے آلے کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
پاکستان میں خودکش دہشت گردی کی بحالی نے بالعموم اور خاص طور پر خواتین کے خودکش بم حملوں نے سکیورٹی اداروں کے لیے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
یہ واضح اشارہ ہے کہ پاکستان میں داخلی سلامتی کی صورت حال ابتر ہوتی جا رہی ہے جس کے تدارک کے لیے دہشت گرد نیٹ ورکس کے دوبارہ ابھرتے ہوئے سیلز کو ختم کرنے کے لیے متحرک آپریشنز جیسے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔
ریاست کو پاکستان میں خواتین کو خودکش دہشت گردی کی طرف دھکیلنے کے اس خطرے کو کم کرنے کے لیے ان وجوہات پر گہرائی سے تحقیقات کرنی ہوں گی۔
نوٹ: یہ تحریر مصنف کی ذاتی رائے پر مبنی ہے، ادارے کا اس سے متفق ہونا لازمی نہیں۔