پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے مبینہ طور پر گذشتہ روز (27 اپریل) ایک بلوچ طالب علم کو سکیورٹی اہلکاروں نے یونیورسٹی انتظامیہ کے تعاون سے حراست میں لیا، تاہم دیگر بلوچ طلبہ اسے ’جبری گمشدگی‘ قرار دیتے ہوئے سراپا احتجاج ہیں۔
ترجمان جامعہ پنجاب کے مطابق حراست میں لیے گئے نمل یونیورسٹی اسلام آباد کے طالب علم بے بگر امداد، پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل میں رہائش پزیر اپنے کزن (جو یونیورسٹی کے طالبعلم ہیں) کے پاس ٹھہرے ہوئے تھے۔
ترجمان نے مزید بتایا کہ ’پنجاب یونیورسٹی انتظامیہ کو سکیورٹی حکام کی جانب سے اطلاع دی گئی کہ وہ کراچی خودکش دھماکہ کے سلسلے میں ہاسٹل میں ٹھہرے ایک مشتبہ مہمان طالب علم کو حراست میں لینا چاہتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ 26 اپریل کو جامعہ کراچی میں واقع کنفیوشس انسٹی ٹیوٹ کے قریب ایک وین کو خودکش حملے کا نشانہ بنایا گیا تھا، جس کے نتیجے میں تین چینی شہریوں سمیت چار افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس واقعے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن آرمی کے مجید بریگیڈ نے قبول کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایک خاتون کی مدد سے یہ حملہ کیا گیا۔
جامعہ پنجاب کے ترجمان کے مطابق سکیورٹی اہلکاروں نے بتایا کہ مذکورہ طالب علم خودکش حملہ آور خاتون کے خاوند سے رابطے میں ہے، جس پر یونیورسٹی کے سکیورٹی انچارج کے ہمراہ سکیورٹی اہلکاروں نے اپنی معلومات کی بنیاد پر ہاسٹل کے اس کمرے میں چھاپہ مارا جہاں بے بگر امداد ٹھہرے ہوئے تھے۔
ترجمان پنجاب یونیورسٹی کے مطابق مذکورہ مشتبہ طالب علم کو وہاں موجود دیگر بلوچ طلبہ کی مزاحمت کے باوجود حراست میں لیاگیا۔
اس معاملے پر متعدد بلوچ طلبہ نے یونیورسٹی میں آج احتجاج کی کال دی اور ایڈمن بلاک کی تالا بندی کردی گئی، تاہم انتظامیہ نے تالے خود توڑ دیے اور مظاہرین کو بتایا کہ بے بگر امداد نامی طالب علم لاپتہ نہیں ہوئے بلکہ انہیں سکیورٹی اہلکاروں نے حراست میں لیا ہے، لہذا آپ عدالت سے رجوع کریں۔
بعدازاں حراست میں لیے گئے طالب علم کے کزن محمد سالم نے لاہور ہائی کورٹ میں دائر کی گئی درخواست میں موقف اپنایا کہ ان کے کزن بے بگر امداد کو پولیس نے بلاوجہ حراست میں لے کر نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔
محمد سالم کا کہنا تھا کہ وہ بلوچستان کے ضلع تربت کے رہائشی اور گرفتار طالب علم کے فرسٹ کزن ہیں، جو عید کی چھٹیاں گزارنے لاہور میرے پاس آئے تھے۔
عدالت نے درخواست سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے سکیورٹی حکام سے اس معاملے پر نو مئی کو وضاحت طلب کرلی۔
اس معاملے کے حوالے سے جب محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پنجاب کے ترجمان سے پوچھا گیا تو انہوں نے تردید کی کہ ’سی ٹی ڈی نے پنجاب یونیورسٹی سے کسی طالب علم کو حراست میں نہیں لیا۔‘
محمد سالم کے بقول پنجاب یونیورسٹی کے ہاسٹل سے بے بگر امداد کو سکیورٹی اہلکاروں اور جامعہ کی سکیورٹی کی جانب سے مشترکہ طور پر حراست میں لیے جانے اور تشدد کرتے ہوئے گاڑی میں ڈالنے کی ویڈیو بھی موجود ہے، جو وہ عدالت میں بھی پیش کریں گے اور جو سوشل میڈیا پر بھی وائرل کی گئی ہے۔
دوسری جانب بلوچ طلبہ کا پنجاب یونیورسٹی میں احتجاج جاری ہے اور انہوں نے اعلان کیا ہے کہ جب تک حراست میں لیے گئے بلوچ طالب علم کو رہا نہیں کیا جاتا، احتجاج جاری رہے گا۔
پنجاب یونیورسٹی ترجمان نے بتایا کہ جو طلبہ احتجاج کے نام پر قانون ہاتھ میں لیں گے، انتظامیہ ان کے خلاف سخت کارروائی عمل میں لائے گی۔