امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان واقع غیر فوجی علاقے میں شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ’ہاتھ ملانا‘ چاہتے ہیں۔
امریکی صدر اس وقت جاپان میں جی 20 کے سربراہ اجلاس میں شریک ہیں۔ انہوں نے اشارہ دیا ہے کہ جب وہ جنوبی کوریا جائیں گے تو اس دوران وہ جنوبی اور شمالی کوریا کے درمیان بنائے گئے غیرفوجی علاقے کا دورہ بھی کر سکتے ہیں۔
رپورٹس کے مطابق وائٹ ہاؤس امریکی صدر کے شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان غیرفوجی علاقے کے دورے کے انتظامات کر رہا ہے۔ یہ علاقہ 1953 میں کوریا کی جنگ کے خاتمے پر قائم کیا گیا تھا۔
اس سے قبل ڈونلڈ ٹرمپ 2017 میں کوریا کے غیرفوجی علاقے کا دورہ کرنا چاہتے تھے لیکن خراب موسم کی وجہ سے ایسا نہیں ہوسکا تھا۔
جی 20 سربراہ اجلاس میں شرکت کے لیے جاپان روانگی سے قبل واشنگٹن میں اخبار ’دی ہل‘ سے گفتگو میں امریکی صدر ٹرمپ نے بتایا کہ وہ ایک روزہ دورے پر جاپان جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان غیر فوجی علاقہ بھی اُن مقامات میں شامل ہے جس کا وہ دورہ کریں گے۔
جنوبی کوریا روانہ ہونے سے پہلے جاپان میں صدر ٹرمپ نے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان کو ایک عجیب پیش کش کی۔ ہفتے کی صبح انہوں نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’چند اہم ملاقاتوں کے بعد، جن میں چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات بھی شامل ہے، وہ جاپان سے جنوبی کوریا جائیں گے۔‘
امریکی صدر نے مزید کہا کہ ’اگر شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان تیار ہوں تو وہ ان سے صرف ہاتھ ملانے اور ہیلو کہنے کے لیے غیرفوجی علاقے میں ملاقات کریں گے۔‘
After some very important meetings, including my meeting with President Xi of China, I will be leaving Japan for South Korea (with President Moon). While there, if Chairman Kim of North Korea sees this, I would meet him at the Border/DMZ just to shake his hand and say Hello(?)!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) June 28, 2019
اگر بات چیت آگے بڑھی تو یہ امریکہ اور شمالی کوریا کے رہنماؤں کے درمیان تیسری ملاقات ہوگی۔ ڈونلڈ ٹرمپ اور کم جونگ ان نے گذشتہ جون میں سنگا پور میں ملاقات کی تھی، جس میں انہوں نے جزیزہ نما کوریا میں امن کے لیے کام پر اتفاق کیا تھا۔ اس سے پہلے فروری میں دونوں رہنماؤں کی ویت نام میں ہونے والی ملاقات میں اس ضمن میں کوئی پیش رفت نہیں ہوئی تھی۔
امریکی صدر کئی بار واضح کر چکے ہیں کہ وہ شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ ان سے ملاقات پر تیار ہیں جو سفارت کاری کی طرف آنے سے پہلے ایٹمی ہتھیار بنانے کی بھرپور کوشش کر چکے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ جی 20 سربراہ اجلاس میں شرکت کے بعد ہفتے کی شام جنوبی کوریا جائیں گے، جہاں وہ ایک رات قیام کریں گے اور اتوار کو صدر مون جے ان سے ملاقات کریں گے۔ جنوبی کوریا کے سرکاری میڈیا نے ایک ہفتہ قبل خبر دی تھی کہ صدر مون جے ان کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ’شاندار مندرجات‘ پر مشتمل ایک خط موصول ہوا ہے، تاہم اس خط کی تفصیل سامنے نہیں آئی۔
امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان ٹھوس مذاکرات زیادہ تر اُس وقت تعطل کا شکار ہوتے رہے ہیں جب شمالی کوریا نے ڈونلڈ ٹرمپ کے اس اصرار کو مسترد کردیا کہ بین الاقوامی پابندیوں میں نرمی سے پہلے اسے ہتھیاروں سے دستبردار ہونا ہوگا۔
سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کے شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان 1953 میں قائم ہونے والی جنگ بندی لائن (غیر فوجی علاقے) کے دورے کے بعد سے ہر امریکی صدر نے اس کا دورہ کیا ہے جبکہ جارج ایچ ڈبلیو بش نے نائب صدر کی حیثیت سے دنوں ملکوں کے درمیان جنگ بندی لائن کا دورہ کیا۔
امریکہ کی جانب سے اپنے قریب ترین فوجی حلیفوں میں شامل جنوبی کوریا کی زبانی اور فوجی امداد میں گذشتہ کئی برس میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ نے جنوبی کوریا کو دوربینیں اور بم پروف جیکٹیں بھی فراہم کی ہیں۔
رواں ہفتے کے آغاز پر جب صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایشیا کے دورے پر روانہ ہوئے تو ان سے سوال کیا گیا کہ کیا وہ علاقے میں موجود شمالی کوریا کے سپریم لیڈر کم جونگ ان سے ملاقات کریں گے ؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ وہ دوسرے بہت سے لوگوں کے ساتھ ملیں گے لیکن وہ شمالی کوریا کے رہنما سے ’ایک اور طریقے‘ سے بات کریں گے۔
شمالی اور جنوبی کوریا کے درمیان واقع غیر فوجی علاقے میں کسی دورے کے لیے سخت حفاظتی انتظامات کیے جاتے ہیں جبکہ دورے کو بھی بے حد خفیہ رکھا جاتا ہے۔