افغان طالبان کے مخالف سیاسی رہنماؤں نے ترکی میں 17 مئی کو ہونے والے اجلاس میں ایک شوریٰ بنانے پر اتفاق کیا ہے تاکہ موجودہ حالات میں طالبان کے خلاف ایک قوی موقف اپنایا جا سکے اور ایک پلیٹ فارم سے اپنے مشترکہ موقف کا اظہار بھی کیا جا سکے۔
گذشتہ سال اگست میں افغانستان پر طالبان کے کنٹرول کے بعد یہ طالبان کے مخالفین کا سب سے بڑا اجتماع تھا جس میں تقریباً 40 رہنماؤں نے شرکت کی تھی۔
ترکی میں منعقدہ اس اجتماع میں ہونے والے فیصلوں سے باخبر ایک رہنما کے مطابق اجلاس میں استاد عبد الرب رسول سياف، مارشل عبدالرشید دوستم، صلاح الدين ربانی، کریم خلیلی، اسماعیل خان، استاد عطا محمد نور، استاد محمد محقق اور احمد ولی مسعود شامل تھے۔
احمد ولی مسعود اس وقت طالبان کے خلاف مزاحمت کے فعال رہنما احمد مسعود کے چچا ہیں اور اجلاس میں ان کی نمائندگی کر رہے تھے۔ سابق وزیر دفاع احمد شاہ مسعود کے بیٹے احمد مسعود اس وقت افغانستان میں مزاحمت کی علامت کے طور پر جانے جاتے ہیں کیونکہ پنج شیر میں ان کے حامی طالبان کی مزاحمت کر رہے ہیں۔
ترکی کے علاوہ کئی اور ممالک میں رہنے والے طالبان مخالف رہنماؤں نے اجلاس میں ویڈیو لنک کے ذریعے شرکت کی، جن میں سابق وزیر داخلہ یونس قانونی اور احمد ضیا مسعود بھی شامل تھے۔
طالبان کے مخالفین کی اکثریت اس وقت ترکی، ایران اور تاجکستان میں موجود ہے۔ ترکی میں ہونے والا اجلاس طالبان کے خلاف مخالفین کی ایک بڑی سیاسی پیش رفت ہے جو ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے، جب پنج شیر اور کئی دیگر صوبوں میں طالبان کے خلاف مسلح مزاحمت کی خبریں بین الاقوامی اور سوشل میڈیا میں کئی دنوں سے گرم ہیں۔
مخالفین کے اجلاس اور ایک شوریٰ ’شورائی عالی مقاومت ملی برائے نجات افغانستان‘ پر اتفاق ملک کے اندر طالبان مخالف سرگرمیوں کو تقویت پہنچا سکتی ہے۔ اس شوریٰ میں نہ صرف تاجک، ازبک اور ہزارہ افراد شامل ہیں بلکہ اس میں سیاف جیسے پشتون رہنما بھی شامل ہیں۔
طالبان نے گذشتہ سال ستمبر میں پنج شیر پر بغیر کسی بڑی لڑائی کے بعد کنٹرول حاصل کر لیا تھا کیونکہ اس وقت اہم رہنما احمد مسعود اور امراللہ صالح سمیت دیگر پنج شیر سے نکل گئے تھے۔ شروع میں پنج شیر میں حالات نسبتاً پر امن تھے اور کچھ آبادی بھی وہاں سے نکل گئی تھی لیکن اب وہاں سے مزاحمت کی خبری آ رہی ہیں۔
طالبان کو اس وقت بڑا دھچکا لگا جب ان کے پولیس انٹیلی جنس کے سربراہ حاجی ملک خان مخالفین سے جا ملے۔ پنج شیر کے حاجی ملک نے طالبان کو خبردار کیا تھا کہ وہ دیگر علاقوں سے جنگجو پنج شیر نہ بھیجیں کیونکہ مقامی تاجک آبادی دیگر علاقوں کے لوگوں کو برداشت نہیں کرے گی، لیکن طالبان نے جنوبی علاقوں سے پشتون طالبان کی مزاحمت کچلنے کے لیے جنگجو بھیج دیے تھے، جنہیں بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا اور سوشل میڈیا پر ایسی ویڈیوز جاری کی گئیں جس میں ایک جہاز سے طالبان کے تابوت ایک جہاز سے اتارے جا رہے ہیں۔
اس وقت تک طالبان کے ساتھ رہنے والے ملک نے طالبان کو شدید جانی نقصان پہنچایا اور ان کے کئی ٹینکوں او گاڑیوں کو بھی تباہ کر دیا۔ مزاحمت کے بعد طالبان مخالف تاجک جنگجو پنج شیر دروں میں چلے گئے، جہاں طالبان کی رسائی ناممکن ہے۔ طالبان کو پنج شیر کے پہاڑی سلسلوں کا زیادہ علم نہیں اور ان کو مقامی تاجک آبادی کی بھی کوئی حمایت حاصل نہیں۔
سوشل میڈیا پر دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ یہ طالبان پنج شیر لڑائی میں مارے گئے تھے اور ان کی میتیں جنوبی افغانستان پہنچائی گئیں۔ طالبان ترجمان ذبیح اللہ مجاہد پنج شیر میں لڑائی اور اپنی ہلاکتوں سے انکار کرتے آ رہے ہیں۔
طالبان 1996 تا 2001 تک اپنی گذشتہ حکومت میں پنج شیر پر کنٹرول حاصل نہیں کرسکے تھے لیکن اس وقت تو شہر اور کئی دیگر علاقے ان کے کنٹرول میں ہیں لیکن کئی پیچیدہ درے ان کے کنٹرول سے باہر ہیں اور وہاں سے مزاحمت جاری رہے گی۔
طالبان کے جانی نقصان کے بعد طالبان پر الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے گرفتار ہونے والوں سمیت کئی عام پنج شیریوں کو قتل کیا ہے اور اس کے متعلق کئی ویڈیوز سوشل میڈیا میں گردش کر رہی ہیں۔
قومی مصالحتی کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ نے بھی الزام لگایا ہے کہ طالبان نے پنج شیر کے علاوہ تخار، بغلان اور خوست صوبوں میں عام لوگوں کو قتل کیا ہے۔ ڈاکٹر عبداللہ طالبان حکومت بننے کے بعد کابل میں اپنے گھر میں موجود تھے اور طالبان نے انہیں تقریباً نو مہینے بعد فیملی سے ملنے کے لیے عید الفطر کے موقع پر ملک سے باہر جانے کی اجازت دی ہے۔
کابل سے نکلنے کے بعد طالبان پر پہلی مرتبہ شدید تنقید کے بعد یہ واضح نہیں کہ وہ وطن واپس آئیں گے یا نہیں، لیکن ڈاکٹر عبداللہ کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق وہ ملک واپس آنا چاہتے ہیں۔ تاہم یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ طالبان نے انہیں اس ضمانت پر جانے کی اجازت دی ہے کہ وہ واپس آئیں گے۔ اس سے پہلے سینیٹ کے سابق چیئرمین فضل ہادی مسلم یار کو کچھ وقت کے لیے متحدہ عرب امارات جانے کی اجازت دی گئی تھی جو واپس آ گئے ہیں۔
اگر ایک طرف طالبان حکومت پر ملک کے اندر اور باہر مخالفین کا دباؤ بڑھ رہا ہے تو دوسری جانب بین الاقوامی سطح پر بھی ان پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ رواں مہینے خواتین کے لیے حجاب لازمی قرار دینے کے بعد اب طالبان نے انسانی حقوق کمیشن سمیت کئی اہم ریاستی اداروں کو ختم کر دیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
افغانستان کے لیے یورپی یونین کے نمائندے ٹامس نکولسن نے بدھ کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ اداروں کو ختم کرنا تشویش کا باعث ہے کیونکہ اس سے ڈائیلاگ، انسانی حقوق اور قومی مصالحت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس نمائندے کا کہنا ہے کہ ایک طویل تنازعے کے بعد ان اداروں کی ضرورت ہے۔
طالبان کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ افغانستان پر اکیلے حکومت کرنا چاہتے ہیں جو ان کے سیاسی نمائندوں کے بار بار عالمی برادری سے کیے گئے وعدوں کے خلاف عمل ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ افغانستان پر تنِ تنہا کوئی ایک گروپ حکومت نہیں کر سکتا۔ طالبان نے اس وقت تک ایک وسیع البنیاد حکومت بنانے کے مطالبات مسترد کر دیے ہیں اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی حکومت میں تمام اقوام اور شخصیات کو نمائندگی دی گئی ہے، طالبان کے اس موقف کو کوئی بھی تسلیم نہیں کرتا اور یہ ان کی حکومت کو تسلیم نہ کرنے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔
طالبان کے کسی حد تک حامی رہنے والے سابق صدر حامد کرزئی کو اسی ہفتے متحدہ عرب جانے سے منع کرنے کے بعد ان کا بھی شاید موقف تبدیل ہو جائے۔ بی بی سی پشتو کی ایک رپورٹ کے مطابق حامد کرزئی کو ایئرپورٹ سے واپس بھیج دیا گیا جو متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ خلیفہ بن زاید النہیان کی وفات پر فاتحہ خوانی کے لیے جانا چاہتے تھے۔
اظہار آزادی کو محدود کرنے اور لڑکیوں کو تعلیم کی اجازت نہ دینے کے فیصلوں نے طالبان کی حمایت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ طالبان کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اپنے ہی فیصلوں کو درست سمجھتے ہیں۔
اس سے پہلے کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ گھروں تک محدود تھے اور دونوں کو کابل سے باہر بھی جانے نہیں دیا گیا تاہم ان کے ساتھ غیرملکی وفود، کابل میں سفارتی نمائندے اور افغان ملاقاتیں کر سکتے ہیں۔ کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ ان رہنماؤں میں شامل ہیں، جن کا کردار کسی حد تک اس دلیل کی بنیاد پر قابل قبول ہو گا کہ انہوں نے طالبان کے آنے کے بعد باہر جانے کی بجائے کابل میں رہنے کو ترجیح دی۔
طالبان کو بھی شاید معلوم ہے کہ کرزئی اور ڈاکٹر عبداللہ اگر ملک سے باہر چلے جاتے ہیں تو شاید ان کے خلاف مزاحمت میں ان کا کردار موثر ہو سکتا ہے۔
طالبان کے لیے سب سے بڑا چیلنج عوامی حمایت کا حصول ہے جس میں وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ اگر ایک جانب 20 سال کی طویل جنگ کا خاتمہ عوام کے لیے ایک تحفہ تھا لیکن لوگوں کی بڑھتی ہوئے اقتصادی مشکلات میں اضافہ، بے روزگاری، طالبان کی جانب سے اظہار آزادی کو محدود کرنا اور سب سے افسوس ناک چھٹی جماعت کی لڑکیوں کو اس وقت تک تعلیم کی اجازت نہ دینے کے فیصلوں نے طالبان کی حمایت کو شدید نقصان پہنچایا ہے، لیکن سب سے افسوسناک پہلو یہ ہے کہ طالبان کسی کی بات سننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور اپنے ہی فیصلوں کو درست سمجھتے ہیں۔