سابق افغان حکومت میں سپریم نیشنل مصالحتی کونسل کے چیئرمین عبداللہ عبداللہ، جو طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان میں مقیم ہیں، ہفتے کو کابل سے بھارت کے دارالحکومت دہلی کے لیے روانہ ہوئے۔
اپنے فیس بک پیج پر پوسٹ کیے گئے ایک پیغام میں عبداللہ نے لکھا: ’عید کے اس دن پر، میں ذاتی سفر کی وجہ سے کچھ دنوں کے لیے بیرون ملک ہوں گا، اس لیے میں آپ کو عید الفطر کے موقع پر مبارک باد پیش کرتا ہوں اور آپ کے لیے خوشیوں بھرے دنوں کی دعا کرتا ہوں۔‘
عبداللہ نے پیغام میں اپنی منزل کا ذکر نہیں کیا، لیکن ان کے قریبی ذرائع نے دی انڈپینڈنٹ فارسی کو بتایا کہ وہ اپنے اہل خانہ سے ملنے دہلی گئے ہیں اور بھارت میں مختصر قیام کے بعد کابل واپس آنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
رمضان المبارک کے جان لیوا حملوں کا ذکر کرتے ہوئے عبداللہ نے مزید کہا: ’رمضان میں پچھلے سالوں کی طرح اس سال بھی خونریز واقعات دیکھنے میں آئے اور مختلف شہروں اور صوبوں میں بڑی تعداد میں شہری دہشت گردی اور نشانہ بنا کر قتل کے نتیجے میں شہید اور زخمی ہوئے۔‘
انسانی حقوق کے احترام اور ان کی پابندی پر زور دیتے ہوئے، انہوں نے کہا کہ ایک افغان شہری کے طور پر، وہ ’عوام کے حق خودارادیت کے قیام‘ اور سماجی انصاف، مساوات، قومی اتحاد اور منصفانہ سیاسی جدوجہد کے لیے ذاتی توقعات کے بغیر افغان عوام کے ساتھ کھڑے ہیں۔
سپریم نیشنل مصالحتی کونسل کے سابق چیئرمین نے ایک جامع حکومت کی تشکیل کو افغانستان کے سیاسی، سلامتی اور اقتصادی بحران کے حل کے لیے کلیدی قرار دیا، اور اس بات پر زور دیا کہ یہ ’خانہ جنگیوں کے تسلسل کو روکنے اور ایک متوازن علاقائی اور نظم و ضبط کے لیے ایک بین الاقوامی خارجہ پالیسی بنیادی ضرورت ہے۔‘
عبداللہ، جو گذشتہ 20 سالوں سے افغان حکومت کے اہم عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں، سپریم نیشنل مصالحتی کونسل کی سربراہی کر تے رہے ہیں، جس نے گذشتہ دو سالوں سے طالبان کے ساتھ مذاکراتی عمل کی قیادت کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ اس سے قبل حامد کرزئی کی حکومت میں وزیر خارجہ اور حزب اختلاف کے رہنما اور حکومت افغانستان کے چیف ایگزیکٹو تھے۔ 15 اگست کو اشرف غنی کے افغانستان سے فرار ہونے کے بعد حکومت کے تیزی سے خاتمے اور کابل میں طالبان کے داخل ہونے کے بعد، عبداللہ نے حامد کرزئی کے ساتھ ایک ویڈیو جاری کی جس میں حالات پر قابو پانے کے لیے اپنی کوششوں کا اعلان کیا۔
طالبان کی کابل آمد کے ابتدائی دنوں میں وہ روزانہ اپنے گھر پر گروپ کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے تھے لیکن یہ ملاقاتیں دو ہفتوں کے بعد بند ہو گئیں اور وہ تقریباً سات ماہ سے طالبان حکام سے نہیں ملے۔ ان کی طالبان رہنماؤں کے ساتھ آخری ملاقات 21 اگست 2021 کو ہوئی تھی اور اس میں طالبان کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالسلام حنفی اور طالبان کے وزیر برائے کان کنی مولوی شہاب الدین دلاور نے شرکت کی تھی۔ اس دوران کئی غیر ملکی سفارت کاروں بالخصوص مغربی سفارت کاروں نے بھی عبداللہ سے ملاقات کی۔
اگرچہ حالیہ مہینوں میں طالبان کی جانب سے عبداللہ پر پابندیاں عائد کرنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں، تاہم انہوں نے اور ان کے قریبی لوگوں نے عوامی طور پر ان اطلاعات کی تصدیق نہیں کی۔ فروری کے وسط میں، عبداللہ کے قریبی ایک باخبر ذریعے نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ عدم تحفظ کی وجہ سے شاذ و نادر ہی اپنا گھر چھوڑتے ہیں۔ عبداللہ کے سابق ساتھی نے، جو افغانستان سے باہر رہتے ہیں، بھی کہا کہ انہیں بیرون ملک سفر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے اور طالبان ان کے ٹھکانے پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔
عبداللہ عبداللہ، حامد کرزئی اور فضل اللہ ہادی مسلم یار سابق افغان حکومتوں کے تین اعلیٰ عہدیدار ہیں جنہوں نے طالبان کے اقتدار میں واپس آنے پر کابل نہیں چھوڑا۔ مسلم یار مارچ کے وسط میں تین ہفتوں کے لیے دبئی گئے اور کابل واپس آگئے لیکن اس دوران حامد کرزئی نے کابل اب تک نہیں چھوڑا۔