اپنی یک جماعتی حکومت کے استحکام اور اسے قانونی حیثیت دینے کی سات ماہ کی کوششوں کے بعد، طالبان نے بالآخر افغانستان کی بااثر شخصیات کے ساتھ ان کی واپسی کے لیے بات چیت کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس فیصلے پر اب تک ملاجلا ردعمل سامنے آیا ہے۔
انڈپینڈنٹ فارسی کے مطابق 16 مارچ کو طالبان نے ’افغان شخصیات کے ساتھ ان کی واپسی اور بات چیت‘ کے نام سے ایک کمیشن بنانے کا اعلان کیا۔ اس کمیشن کی سربراہی طالبان کے وزیر معدنیات شہاب الدین دلاور کر رہے ہیں اور اس کا مقصد افغانستان کی اہم شخصیات اور سابق حکومتی عہدیداروں کو واپس ملک میں لانا ہے۔
اس کمیشن کے ارکان میں طالبان کی وزارت خارجہ کے قائم مقام سربراہ امیر خان متقی، وزیر اطلاعات و ثقافت خیر اللہ خیرخواہ، فوج کے چیف آف سٹاف قاری فصیح الدین، انس حقانی اور فروغ فضیلت کے وزیر محمد خالد حنفی شامل ہیں۔
1/2 According to the recent decision of the cabinet a commission has been formed (Repatriation and Relationship of Afghan Personalities) under the supervision of Sheikh Shahabuddin Delawar.
— Dr.M.Naeem (@IeaOffice) March 16, 2022
It has six members: Mawlawi Amir Khan Muttaki, Sheikh Muhammad Khalid Hanafi pic.twitter.com/LOqpEtcukf
طالبان رہنماؤں نے اپنی حالیہ تقاریر میں بارہا لوگوں سے ملک واپس آنے اور افغانستان کی تعمیر نو میں حصہ لینے کا مطالبہ کیا ہے لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ ان کی بااثر شخصیات سے مراد کون لوگ ہیں۔
طالبان جن لوگوں کو افغانستان واپس لانے کی کوشش کر رہے ہیں وہ وہ ہیں جو طالبان کی انتقامی کارروائی کے خوف سے افغانستان سے فرار ہوئے اور مختلف ممالک میں انہوں نے پناہ حاصل کی۔
سابق افغان حکومت کے بہت سے سیاسی رہنما، خاص طور پر پارٹی رہنما ترکی، ایران اور وسطی ایشیائی ممالک میں مقیم ہیں۔ حالیہ مہینوں میں ان شخصیات میں سے متعدد نے طالبان کے خلاف مظاہرے شروع کیے ہیں اور خبردار کیا ہے کہ اگر طالبان ایک جامع حکومت پر رضامند نہیں ہوتے ہیں تو وہ اس مقصد کے حصول کے لیے تمام ممکنہ ذرائع استعمال کریں گے۔
سابق افغان حکومت کے وزیر خارجہ محمد حنیف اتمر نے ردعمل میں اسے اچھا اقدام قرار دیا لیکن اس کمیشن کے مینڈیٹ کی وضاحت اور سابق حکومت کی واپسی کا مطالبہ کیا۔
2/3 It is, therefore, exceedingly important that its mandate is clearly explained to the nation. Rather than repatriating a few politicians, the goal should be the return to the country of a state and government, founded on the free will of the Afghan people and committed to
— Mohammed Haneef Atmar محمد حنیف اتمر (@MHaneefAtmar) March 17, 2022
تاہم، سابق افغان صدر حامد کرزئی نے 17 مارچ کو فیس بک پر پوسٹ کیے گئے ایک بیان میں طالبان کے اس اقدام کا خیرمقدم کرتے ہوئے اسے افغانستان میں دیرپا امن اور استحکام کی جانب ایک موثر قدم قرار دیا۔
’مجھے امید ہے کہ یہ کمیشن بیرون ملک مقیم ہمارے کچھ ہم وطنوں کو واپس لانے کے لیے ضروری اقدامات کرے گا۔ افہام و تفہیم اور اعتماد سے، یہ افغانستان کے لوگوں کو اپنے ملک کے قومی فیصلوں میں حصہ لینے کے قابل بنائے گا۔‘
سابق صدر حامد کرزئی کے تبصرے اور طالبان کے اس اقدام کی حمایت صرف ایک ہفتہ قبل سامنے آئی ہے۔ العالم ٹی وی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے اپنی اور افغان سپریم نیشنل مصالحتی کونسل کے سابق چیئرمین ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے ملک چھوڑنے پر پابندی کی تصدیق کی تھی۔ کرزئی اور عبداللہ سات ماہ سے افغانستان میں ہیں اور گھروں میں نظر بند ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب افغان حکومت کے متعدد سابق اہلکاروں نے طالبان کے اس اقدام کو رائے عامہ کو دھوکہ دینے اور عوام اور عالمی برادری کے لیے افغانستان کے حالات کو معمول پر لانے کی کوشش قرار دیا ہے۔
سابق وزیر داخلہ مسعود اندرابی نے فیس بک پر لکھا: ’طالبان، اگر وہ لوگوں پر یقین رکھتے ہیں، تو انہیں عام شہریوں کو قتل اور تشدد کرنا بند کرنا چاہیے اور ایک جامع حکومت بنانے، انتخابات کے انعقاد اور نظام کو غیر مرکزیت دینے کے لیے پہلا قدم اٹھانا چاہیے۔‘
طالبان کے گذشتہ برس اگست میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے افغان حکومت کے بعض سابق اہلکار حال ہی میں افغانستان واپس آئے ہیں۔
سابق افغان صدر کے دفتر کے سربراہ عبدالسلام رحیمی فروری میں کابل پہنچے اور طالبان حکام نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ رحیمی کی کابل واپسی اور طالبان حکام کے ساتھ ان کی ملاقات نے شدید ردعمل کو جنم دیا۔ سابق افغان رکن پارلیمنٹ فوزیہ کوفی نے الزام عائد کیا کہ سابق افغان حکومت کے خاتمے سے قبل رحیمی اور طالبان رہنماؤں کے درمیان خفیہ مواصلاتی رابطے تھے۔
تاہم، میدان وردک کی سابق میئر ظریفہ غفاری کی واپسی نے خاص طور پر افغانستان میں خواتین کے حقوق کے کارکنوں میں مزید ردعمل کو ہوا دی۔ غفاری، جنہوں نے طالبان کی حکومت کے ابتدائی دنوں میں افغانستان چھوڑنے کے بعد اس صورت حال کو اپنے اور دیگر افغان خواتین کے لیے انتہائی خطرناک قرار دیا، نے اپنی امداد تقسیم کرنے کی تصاویر پوسٹ کر کے افغانستان واپسی کا اعلان کیا۔
خواتین کے حقوق کے کارکنوں نے ظریفہ غفاری کے اس عمل کو افغان خواتین پر طالبان کی پابندیوں اور دباؤ کو بھلانے اور افغان خواتین کی معمول کی صورت حال کو عالمی برادری کی نظروں میں دکھانے کی کوشش سے تعبیر کیا۔
تاحال یہ واضح نہیں ہے کہ طالبان کمیشن نے اہم سیاسی شخصیات کو افغانستان واپس آنے کی دعوت دینے کے لیے کسی سے رابطہ کیا ہے یا نہیں۔
تازہ گرفتاریاں
ادھر بی بی سی پشتو سروس نے ایک معتبر ذرائع کی حوالے سے تصدیق کی ہے کہ طالبان انٹیلی جنس نے افغانستان میں ایک نجی طلوع نیوز ٹیلی ویژن سٹیشن کے تین ملازمین کو گرفتار کر کے ’نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا ہے۔‘
ذرائع نے بتایا کہ جمعرات کی شام تقریباً سات افراد، جو بظاہر طالبان کی انٹیلی جنس فورس تھے، کابل میں طلوع نیوز ٹی وی کے دفتر میں داخل ہوئے اور نیٹ ورک کے ڈائریکٹر خپلوک صافی، ترجمان بہرام امان اور ٹی وی نیٹ ورک کے ایک اور ملازم کو گرفتار کر لیا۔
طالبان نے ابھی تک اس خبر پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔