وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے لاہور سمیت صوبے کے دیگر شہروں میں ہیضے اور ڈائریا (اسہال) کی بیماری بڑھنے کا نوٹس لیتے ہوئے سیکرٹری ہیلتھ سے رپورٹ طلب کرلی۔
وزیراعلیٰ نے ہسپتالوں کی انتظامیہ کو بھی ہدایات جاری کی ہیں کہ وہ مریضوں کا بہترین علاج کریں اور ان کے لیے ادویات کی فراہمی کو یقینی بنائیں۔
حالیہ دنوں میں لاہور میں ہیضے اور اسہال کے متعدد کیس رپورٹ ہوئے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اس صورت حال کے حوالے سے شعبہ برائے کمیونیکیبل ڈزیز کنٹرول پنجاب (CDC) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر شاہد مگسی سے بات کی، جنہوں نے بتایا: ’اب تک لاہور کے سرکاری ہسپتالوں میں ڈائریا کے دو ہزار کیس رپورٹ ہوئے ہیں جبکہ لاہور میں 14 اور وہاڑی سے ہیضے کا ایک کیس بھی رپورٹ ہوا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ویسے تو کیسز کی تعداد اس سے زیادہ ہے، لہذا اب پرائیویٹ ہسپتالوں کا ڈیٹا بھی اکٹھا کیا جائے گا۔ بقول ڈاکٹر مگسی: ’گذشتہ برس ڈائریا کے ایک لاکھ 81 ہزار مریض رپورٹ ہوئے تھے جبکہ اس برس گذشتہ سال کے مقابلے میں مئی کے مہینے تک 10 ہزار کیسز زیادہ ہیں، جس کی بڑی وجہ موسم اور غیر معیاری کھانا ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی سی نے واسا اور پنجاب فوڈ اتھارٹی کو بھی بتایا ہے کہ لاہور میں ڈائریا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیچھے آلودہ پانی اور باہر سے ملنے والے غیر معیاری کھانے کی اشیا ہو سکتی ہیں۔
’سی ڈی سی حکام اس کی روک تھام کے لیے ہیلتھ ایجوکیشن دے رہے ہیں اور ساتھ ہی واٹر کلورینیشن کررہے ہیں۔ لوگوں کو آگاہی دینے کے لیے میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے مہم بھی چلا رہے ہیں کہ باہر سے کھانا نہ کھائیں اور ہاتھ بار بار دھوئیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ سی ڈی سی نے لاہور میں اکیوٹ واٹری ڈائریا (AWD) کیسز کی تحقیقات شروع کی ہیں اور نمونوں کے لیبارٹری تجزیے کے لیے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ہیلتھ کو بھی شامل کیا ہے۔
تاہم سی ڈی سی کے ان تمام اقدامات سے پاکستان اکیڈمی آف فیملی فزیشنز (پی اے ایف پی) خوش نہیں دکھائی دیے۔
پی اے ایف پی کے صدر ڈاکٹر طارق میاں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’سی ڈی سی جو نمبر بتا رہا ہے وہ صرف سرکاری ہسپتالوں سے اکٹھے کیے گئے ہیں۔ ہمارے خیال میں اس وقت تو لاہور میں ہیضے کی وبا کی صورت میں پھیلا ہوا ہے۔ دیکھا جائے تو 80 فیصد کیس تو نجی ہسپتال دیکھ رہے ہیں، وہ نمبر تو سی ڈی سی کے پاس ہیں ہی نہیں۔‘
ڈاکٹر طارق میاں کے مطابق مریض سب سے پہے فیملی فزیشن کے پاس آتے ہیں۔ ’ہمارے پاس اس وقت سب سے زیادہ اور شدید بیماری کے ساتھ مریض آرہے ہیں۔‘
ڈائریا کی سب سے خطرناک قسم ہیضہ ہوتا ہے۔ اس میں بالکل پانی کی طرح کے پتلے دست ہوتے ہیں جن پر قابو پانا ناممکن ہو جاتا ہے اور مریض کا فشار خون اور نبض بہت جلد نیچے چلی جاتی ہے جس سے اس کا نہ صرف ہارٹ فیل ہو سکتا ہے بلکہ گردے بھی فیل ہو سکتے ہیں اور جان جا سکتی ہے۔
ڈاکٹر طارق میاں کے مطابق: ’میں نے یہ نوٹ کیا ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں جو مریض جا رہے ہیں انہیں ایک ڈرپ لگا کر گھر بھیج دیا جاتا ہے اور وہ گھر پہنچتے پہنچتے پھر اسی صورت حال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ اس حالت میں کم از کم پانچ سے چھ ڈرپیں لگانی ضروری ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ہیضے کی وبا پھیلنے کی وجہ جو ہمیں سمجھ آرہی ہے وہ یہ ہے کہ ہماری سیوریج لائنز بہت پرانی ہو گئی ہیں۔ وہاں لیکج ہو رہی ہے اور گندا پانی صاف پانی میں شامل ہو جاتا ہے۔ ہیضے کاجرثومہ پاخانے کے ذریعے نکلتا ہے اسی لیے جب سیوریج کا پانی پینے کے پانی کے ساتھ مکس ہوتا ہے تو اسے پینے سے یہ بیماری پھیلتی ہے۔ میرے خیال میں 70 سے 80 فیصدوجہ یہ پانی ہے۔‘
ڈاکٹر طارق کے خیال میں دوسری وجہ اس موسم میں برف پر رکھے پھل ہیں جس پر مکھیاں بیٹھتی ہیں، جو ہیضے کے جراثیم کی ترسیل کرتی ہیں۔ اس کے علاوہ ہوٹلوں پر ملنے والے کھانے کی تیاری میں صفائی کا خیال نہیں رکھا جاتا جبکہ دودھ سے بنی اشیا میں بھی اس جرثومے کی بڑی جلدی افزائش ہوتی ہے۔
دوسری جانب چلڈرن ہسپتال کے پروفیسر آف پیڈیاٹرک ڈاکٹر جنید رشید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’چلڈرن ہسپتال میں ہم ڈائریا کے شکار کم از کم پانچ سو بچوں کو روزانہ دیکھ رہے ہیں، لیکن اب تک چلڈرن ہسپتال میں ہیضے کا کوئی مریض رپورٹ نہیں ہوا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اکیوٹ واٹری ڈائریا ہمیشہ اس موسم میں آتا ہے اور یہ ڈائریا بہت سے جراثیم کی وجہ سے ہوتا ہے، ان میں سے ایک ہیضہ ہوتا ہے۔ چلڈرن ہسپتال میں سو کے لگ بھگ ٹیسٹ ہو چکے ہیں اور ہمارے پاس بچوں میں ہیضے کی تصدیق نہیں ہوئی ہے۔‘
ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ ’اسی موسم میں ہمارے پاس فوڈ پوائزننگ کے کیسز بھی بہت زیادہ آتے ہیں کیونکہ اس موسم میں کھانے جلدی خراب ہو جاتے ہیں، لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے بھی فریج میں پڑے کھانے خراب ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارا معاشرہ صفائی ستھرائی کو بھی ملحوظ خاطر نہیں رکھتا۔ پانی کے مسائل بھی گرمی میں آتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہیضے کا مرض ویسے تو اپریل سے ستمبر تک پھیلتا ہے لیکن برسات کے موسم میں اس کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اس لیے ہیضے کے کیس کہیں نہ کہیں لاہور میں رپورٹ ضرور ہوئے ہوں گے۔‘
ڈاکٹر جنید کے مطابق: ’ہیضےکو پھیلانے کے لیے جراثیم کی بہت کم مقدار کافی ہے اور یہ تیزی سے پھیل جاتا ہے۔ یہ اکثر بغیر بخار کے ہوتا ہے اور اس میں پیٹ درد بھی کم ہوتا ہے۔‘ ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’اس برس گرمی وقت سے پہلے زیادہ ہونے کی وجہ سے ڈائریا کے کیسز بھی جلد سامنے آگئے ہیں۔‘
اسی صورت حال کے حوالے سے میو ہسپتال کے ڈاکٹر سلمان کاظمی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’ڈائریا کے کیسز ہر سال ہی آتے ہیں لیکن اس بار ان کی تعداد میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ اس میں سب سے خطرناک بات یہ ہے کہ اگر جسم سے پانی زیادہ نکل جائے تو اس سے انسان کے گردے فوری فیل ہو سکتے ہیں، وہ ڈائلیسز پر جا سکتا ہے یا اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے، اسی لیے یہ ضروری ہے کہ اگر انہیں ڈائریا کی شکایت ہے تو فوری ڈاکٹر سے رابطہ کریں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ صاف پانی پیئیں۔ ’پنجاب فوڈ اتھارٹی کو چاہیے کہ جتنے لوگ باہر بازاروں میں گولے گنڈے، شربتوں کی ریڑھیاں لگاتے ہیں، ان کا پانی ٹیسٹ کریں اور دیکھیں کہ ان میں سے کسی میں بیکٹیریا تو نہیں، کیونکہ بیشتر لوگ گندی جگہ سے پانی لیتے ہیں اور اس کے مشروبات بنا کر بیچ دیتے ہیں اور پینے والے بیمار ہو جاتے ہیں۔‘
’لوگوں کو چاہیے کہ پانی کو ابال کر پیئیں اور گھر سے پانی کی بوتل لے کر نکلیں اور خاص طور پر مزدور طبقہ اس حوالے سے بہت احتیاط کرے۔